Search....

6 questions they are asked during the job interview


جاب انٹرویوز کسی بھی شخص کے اوسان خطا کرنے کا سبب بن سکتے ہیں  خاص طور پر اگر یہ آپ کی پہلی جاب ہو لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ انٹرویو لینے والے حضرات اکثر چند بنیادی سوالات ضرور پوچھتے ہیں  جو بظاہر تو آسان لگتے ہیں  لیکن ان کے پیچھے کئی سالوں کا تجربہ اور محنت چھپی ہوتی ہے، کیا کبھی آپ کو اس بات پر حیرت ہوئی ہے کہ  مختلف عہدوں کے لیے کئے جانے والے انٹرویو ز کے چند سوالات ہمیشہ ایک سے ہی کیوں ہوتے ہیں اور  آج ہم وہ مخصوص سوالات  اوران کے پیچھے موجود منطق آپ کی معلومات میں اضافے کے لیے پیش کر رہے ہیں۔
اپنے بارے میں کچھ بتائیے ۔
اس بظاہر سادے سے سوال کے ذریعے ادارہ ، نوکری کے خواہش مند افراد سے یہ جاننا چاہتا ہے کہ کیا انہیں اپنی قابلیت کا اندازہ ہے اور وہ اپنے آپ کو مطلوبہ عہدے کا مستحق سمجھتا ہے، انٹرویو لینے والے اکثر و بیشتر اس ایک سوال کے جواب سے امیدواروں کی چھانٹی کر لیتے ہیں اور وہ درخواست گزار افراد سے امید رکھتے ہیں کہ اسے اپنی شخصیت اور اہلیت کا بخوبی اندازہ ہونا چاہئے اور اس کے ساتھ ساتھ اسے اپنا تعلیمی  اور پیشہ ورانہ ریکارڈ بھی پتہ ہونا چاہے۔
آپ پچھلی کمپنی کیوں چھوڑنا چاہتے ہیں۔
اس پیچیدہ سوال  کا جواب دینے سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ اس کا جواب آپ کے انٹرویو پر گہرا اثر ڈالے گا کیوں کہ ادارہ اس بات کو جاننے کا ممتنی ہے کہ آ پ کی پچھلی ملازمت میں کیا آپ صلاحیت کا صحیح مظاہرہ نہیں کر سکے تھے یا پھر آپ کے افسر کا سلوک ناروا تھا، آپ کی کیا خوبیاں اور خامیاں کیا ہیں یہ ایک سیدھا سادھا سوال ہے جو حاضر جوابی کا متقاضی ہے ، آپ کو اپنی خوبیاں اور خامیاں پتہ ہونی چاہئیں، بس ایک بات کا خیال رہے کہ گفتگو کا رخ آُپ کی خوبیو ں  کی طرف ہونا چاہئیں نہ کہ آپ کی خامیوں کی طرف۔
آپ یہ ملازمت کیوں کرنا چاہتےہیں۔
اکثر ادارے یہ جاننے میں دلچسپی رکھتے ہیں کہ انٹرویو دینے والا  کتنی تیاری کے ساتھ آیا ہےکیا اسے کمپنی کے بارے میں اطمینان بخش معلومات ہیں یا نہیں، اس کے ساتھ ساتھ انٹرویو لینےوالا یہ بھی جاننا چاہتا ہے کہ آیا آپ ان کی کمپنی کے لیے کچھ نیا کرنےکی صلاحیت رکھتے ہیں ۔
اپنی موجودہ موجودہ پیشہ ورانہ ذمے داریوں کے بارے میں بتائیں۔
یہ سوال کرنے والے کا مقصد یہ جاننا ہوتا ہے کہ کیا درخواست گزار کمپنی اخلاقیات کے معیار پورا اترتا ہے یا نہِں  مزید یہ کہ اس نے کون کسی کمپنی پراجیکٹس پر کام کیا ہے جس میں اس کی قائدانہ صلاحیت  ابھر کر سامنے آئی ہو۔
آپ آنے والے پانچ سالوں میں اپنے آپ کو کہاں دیکھتے ہیں۔
یہ کافی اہم سوال ہے جس کا مقصد یہ جاننا ہوتا ہے کہ امیدوار کام سے کس حد تک سنجیدہ اور ملاز مت کے معاملے میں ثابت قدم ہے اور اس کی ذاتی اہداف کس حد تک کمپنی کے اہداف سے میل کھاتے ہیں، یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ وہ افراد جو اپنے کیرئیر میں پوری توجہ مرکوز کرکے آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو ادارہ ان ہی پر انویسٹ کرنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔

started to Friday prayers in all mosques and prayer will be paid one time :Islamabad


وفاقی وزیر مذہبی امور سردار یوسف نے کہا ہے کہ جمعہ سے اسلام ا باد کی تمام مساجد میں ایک ہی وقت میں اذان اور نماز ادا کی جائے گی ، جمعہ کو فیصل مسجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی سے نظام صلوۃپر عملدر آمد شروع ہو جائے گا۔ امام کعبہ کے اعزاز میں ظہرانے سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر مذہبی امور سردار یوسف نے کہا کہ یکم مئی سے اسلام آباد میں تمام مساجد میں ایک ہی وقت میں نماز ادا کی جائیگی ، تمام مسالک کے علماء4 نے اس بات پر اتفاق کرلیا ہے ، جمعہ کو فیصل مسجد میں نظام صلوٰۃ کا آغاز کیا جائیگا ، صدرمملکت بھی جمعہ کی نماز فیصل مسجد میں ادا کرینگے ، اسلام آباد کے بعد پورے ملک میں نظام صلوٰۃ قائم کیا جائیگا۔ سعودی عرب کی سلامتی کے حوالہ سے وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ کسی کو حرمین شریفین کی طرف دیکھنے کی جرات نہیں ، کسی کو حرمین شریفین کی طرف دیکھنے کی جرات نہیں ، پاکستان نے حرمین شریفین اور سعودی عرب کے تحفظ پر دو ٹوک موقف اپنایا ہے۔

The entire region will benefit from the economic corridor: Pakistan


 وفاقی وزیر برائے ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری سے چاروں صوبے فائدہ اٹھائیں گے۔ راہداری کا روٹ بدلنے کی باتیں بے بنیاد ہیں۔ وفاقی وزیر برائے ترقی و منصوبہ بندی احسن اقبال کا کہنا ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ گیم چینجر ہے۔ اقتصادی راہداری سے پورے خطے کو فائدہ ہو گا۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ گوادر کو تین مرکزی شاہراؤں سے منسلک کیا جائے گا۔ گوادر پورٹ کا سب سے زیادہ فائدہ بلوچ عوام کو ہو گا۔ احسن اقبال کا کہنا تھا اج پاکستان کو سرمایہ کاری کے لیے محفوظ ملک تصور کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کی حقیقی تبدیلی یہی ہے جو اگئی ہے۔

Israel was responsible for the aggression in Gaza


 اقوام متحدہ کی انکوائری کمیٹی نے اسرائیل کو غزہ میں جارحیت کا ذمے دار قرار دیدیا۔عالمی میڈیا کے مطابق غزہ کے متعلق اقوام متحدہ کی تحقیقات کمیٹی نے اپنی رپورٹ مکمل کرلی ہے جس کے مطابق 2014 میں اسرائیل نے غزہ میں فلسطینی پناہ گزینوں کے اسکولوں اور کیمپوں پرجان بوجھ کر فضائی بمباری اورٹینکوں سے شیلنگ کی جس سے بڑے پیمانی پرجانی نقصان ہوا۔ نشانہ بنائی گئی عمارت میں 3 ہزارشہری سورہے تھے بم گرتے ہی عمارت خون ا?لود کپڑوں ، بستروں اور ملبے کا ڈھیر بن گئی۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے اسرائیلی جارحیت پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

Mirza can keep private guards, HC


سندھ ہائی کورٹ نے سابق وزیر داخلہ سندھ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی سیکیورٹی سے متعلق درخواست پر فیصلہ دیا ہے کہ ذوالفقار مرزا پرائیوٹ گارڈ رکھ سکتے ہیں۔سندھ ہائی کورٹ میں سابق وزیر داخلہ سندھ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے درخواست دائر کی تھی کہ سندھ حکومت کی جانب سے ان کو دی گئی سیکورٹی واپس لے لی گئی ہے جبکہ ان کی اہلیہ سابق اسپیکر قومی اسمبلی بھی ہیں لیکن ان کی سیکیورٹی ی بھی واپس لے لی گئی ہے جس کے باعث ان کی جانوں کو خطرہ ہے عدالت بھی ان کو سیکیورٹی فراہم کرنے کی ہدایت کرچکی ہے۔گزشتہ روز سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں 2رکنی بنچ نے اس درخواست کی سماعت کی اور فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا عدالت نے اپنافیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ ذوالفقار مرزا پرائیوٹ سیکورٹی گارڈ رکھ سکتے ہیں جبکہ عدالت کا کہنا ہے کہ مدعی نے دوران سماعت انور مجید اور فریال تالپور کی سیکورٹی کے حوالے دیئے تھے عدالت کو بتایا جائے کہ ان کی سیکیورٹی پر کتنے پولیس اہلکار تعینات ہیں اور کس پالیسی کے تحت ہیں جبکہ سابق وزرا کی سیکیورٹی کے حوالے سے کی جانےوالی پالیسی کے بارے میں بھی عدالت کو آگاہ کیا جائے۔عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ اگر کسی سابق وزیر کو سیکورٹی رکھنے کا استحقاق نہیں تو سب کےساتھ مساوی رویہ رکھا جائے عدالت نے مزید سماعت 11 مئی تک ملتوی کردی۔

Hindu and Muslim at the same time, Salman Khan


بالی ووڈ کے دبنگ اسٹار سلمان خان نے غیر قانونی اسلحہ کیس کی سماعت کےدوران جج کی جانب سے پوچھے گئے سوال پر خود کو بیک وقت ہندو اور مسلمان قرار دے دیا۔بھارتی میڈیا کے مطابق بالی ووڈ اسٹار سلمان خان غیر قانونی اسلحہ کیس کی سماعت کے موقع پرجودھ پور کی عدالت میں پیش ہوئے جہاں ان کے مداحوں کی بڑی تعداد بھی جمع تھی جب کہ عدالت میں دوران سماعت جج کی جانب سے جب سلمان خان سے سوالات کیے گئے تو ایک سوال کے جواب پر بالی ووڈ اسٹار کا کہنا تھا کہ وہ ایک بھارتی ہیں تاہم ان کی والدہ ہندو اور والد مسلمان ہیں اس لیے وہ بیک وقت ہندو اور مسلمان ہیں۔واضح رہے کہ سلمان خان پر1998 میں جودھ پور میں کالے ہرن کے غیرقانونی شکار کا الزام عائد کیا گیا تھا جب کہ محکمہ جنگلات نے ان کے خلاف کالے ہرن کے شکار کے علاوہ غیرقانونی اسلحہ کا کیس بھی دائر کررکھا ہے۔

High winds, rain forecast, imposed in Sindh, Lahore were alert

محکمہ موسمیات نے کہا کہ کراچی سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں میں تیز اور گرد آلود ہوائیں چلنے امکان ہے ، سندھ میں رین ایمرجنسی نافذ جبکہ لاہور میں تمام ٹاوٴنز کو الرٹ کردیا گیا ۔محکمہ موسمیات نے کراچی سمیت ملک کے مختلف علاقوں میں تیز اور گرد آلود ہوائیں چلنے امکان ظاہر کیا۔کراچی میں چار سے پانچ گھنٹے تک تیز اور گرد آلود ہوائیں چلنے کا امکان ہے 

جس کے باعث حدنگاہ بھی کم ہو سکتی ہے ۔ موسم کا حال بتانے والوں نے کہاہے مالاکنڈ ، ہزارہ ، پشاور ، مردان ، راولپنڈی ڈویڑن ، اسلام آباد ، کشمیر ، گلگت بلتستان میں کہیں کہیں جبکہ گوجرانوالہ ، لاہور ڈویژن میں چند مقامات پر تیز ہواوٴں اور گرج چمک کے ساتھ مزید بارش کا امکان ہے ، ملک کے دیگر علاقوں میں موسم شدید گرم اور خشک رہے گا۔ پنجاب کے دارالحکومت لاہور اور اِس کے گردونواح میں تیزہواوٴں کے باعث ہرطرف گرد و غبار چھا گیا ، مختلف علاقوں میں ہلکی بارش بھی ہوئی ، گردوغبار کے باعث حد نظر بڑی حد تک کم ہوگئی ، صورت حال کی پیش نظر ضلعی انتظامیہ کی طرف سے تمام ٹاوٴنز میں الرٹ کر دیا گیا۔ آزاد کشمیر میں بارشوں کے باعث رابطہ سڑکیں بند ہونے کے ساتھ دریاوٴں میں بھی پانی کی سطح بلند نے لگی ۔آزاد کشمیر کے دیگر علاقوں چکار، چناری راولاکوٹ اور چکوٹھی میں بارشوں کے بعد سردی ایک مرتبہ پھر لوٹ آئی۔

War is not a conflict between institutions, Justice Nasir-ul-Mulk

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ناصر الملک نے کہا ہے کہ اداروں کے درمیان کوئی جنگ ہے نہ ٹکراؤ، دیکھ رہے ہیں کہ آئینی ترامیم کے تحت کسی آرٹیکل کی خلاف ورزی تو نہیں ہوئی۔ چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 17رکنی فل بینچ نے 18ویں و21ویں آئینی ترامیم اور فوجی عدالتوں کے خلاف درخواستوں کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران سماعت میں لاہور ہائی کورٹ بار کے وکیل حامد خان کے دلائل پر جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس بات سے کسی کو انکار نہیں عدلیہ کی آزادی اور انتظامیہ سے علیحدگی آئین کا اہم نکتہ ہے، اگر پارلیمانی کمیٹی کو جوڈیشل کمیشن کا حصہ بنا دیا جائے تو پھر آپ کو قبول ہوگا کیا اس صورت میں اختیارات کی تقسیم متاثر نہیں ہوگی۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ ہم آئین میں ایسی ترامیم کیوں نہیں لاتے جو ہمارے حالات کے مطابق ہو، چیف جسٹس ناصر الملک نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کیا ججز پارلیمانی کمیٹی عدلیہ کی آزادی اور اختیارات کی تقسیم کے 

خلاف ہے، یہ بھی بتایا جائے کہ ججز تقرری پارلیمانی کمیٹی آئین کی کس شق کے خلاف ہے۔ ہر ملک میں ججز کی تقرری کا طریقہ کار مختلف ہے ترمیم ہوگی تو مقدمات بھی عدالتوں میں آئیں گے۔ دیکھ رہے ہیں کہ ترمیم کے تحت کسی آرٹیکل کی خلاف ورزی تو نہیں ہوئی ہمارا دوسرے ممالک کی عدالتوں سے متاثر ہونا ضروری نہیں۔ حامد خان کے بعد بیرسٹر ظفر اللہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ سپریم کورٹ نے 18ویں ترمیم میں عبوری حکم دیا جس کی وجہ سے پارلیمنٹ نے 19ویں ترمیم منظور کی جس پر جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ کیا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ عدالت نے 19 ویں ترمیم جبراً منظور کرائی، جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ عبوری حکومت میں پارلیمنٹ کو ہدایت نہیں تجویز دی تھی، بیرسٹر ظفراللہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے عبوری حکم کے باعث اداروں میں جنگ ہوئی جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اداروں میں کوئی جنگ ہے نہ ٹکراؤ۔ کیس کی مزید سماعت کل ہوگی۔

Rays through the introduction of advanced technology to control the weather



سائنسی دنیا میں شعاعوں کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے اس کی مدد سے انسانی آپریشن سمیت مختلف تکینیکی کام بھی لیے جاتے ہیں جب کہ اب ان شعاعوں سے ایک ایسا کام لیا جائے جسے سن کر ہی آپ حیرت میں مبتلا ہوسکتے ہیں کیونکہ اب شعاعوں سے موسم کو بھی کنٹرول کیا جاسکے گا۔ سوئٹزرلینڈ کے ماہر طبیعیات جین پیرے وولف نے موسموں کو کنٹرول کرنے کے لیے شعاعوں کا استعمال کر کے بادلوں کو تخلیق دینے کی ٹیکنالوجی کو جدید شکل دے دی ہے اور اس جدید ٹیکنالوجی کو انہوں نے کالا جادو کانام دیا ہے جس کے ذریعے شعاعوں کا استعمال کرتے ہوئے ایسے علاقے جہاں خشک سالی ہو وہاں بادلوں کو ’’کونڈین سیشن‘‘ یعنی عمل تبخیر سے تخلیق کیا جاتا ہے جس میں بھاپ کو ڈراپ لیٹ اور آئس کرسٹل میں تبدیل کیا جاتا ہے جب کہ اسی عمل سے قدرتی بادل بھی وجود میں آتے ہیں۔ اس جدید عمل کے مکمل ہونے کے بعد بارش شروع ہوجاتی ہے اور یوں وہ زمین جو طویل عرصے سے پانی کو ترس رہی ہوتی ہے عارضی اور محدود پیمانے پر اپنی پیاس بجھا پاتی ہے۔ جین کا کہنا ہے کہ اس عمل کو لیبارٹری میں محدود پیمانے پر کیا گیا کیونکہ شعاعیں اتنی طاقتور نہیں ہوتیں کہ اس سے بڑے پیمانے پر بادل بنائے جاسکیں جب کہ اس عمل میں کئی تکینیکی پیچیدگیاں بھی ہیں جو اس راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو شعاعیں استعمال کی جارہی ہیں وہ زیادہ طاقتور نہیں کیونکہ اس میں ایک ٹیرا واٹ توانائی موجود ہوتی ہے جو جوہری پلانٹ میں استعمال کی جاتی ہے تاہم یہ زیادہ عرصہ قائم نہیں رہ سکتی۔ جین پیرے وولف نے اس ٹیکنالوجی کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ان شعاعوں کی مدد سے صرف بادل ہی تخلیق نہیں دیئے جاتے بلکہ ان میں کڑکتی ہوئی ایسی بجلی بھی پیدا کی جاسکتی ہے جو زمین پر گرنے کے بجائے صرف بادلوں تک ہی محدود رہے گی۔ جین کے مطابق چند سال قبل میکسیکو کے پہاڑوں پر جا کر شعاعوں کو تجرباتی طور پر فضا میں فائر کیا گیا جس سے بادلوں میں کم طاقت کی کڑکتی بجلی وجود میں آگئی جب کہ اس ٹیکنالوجی سے موسم کو مرمت بھی کیا جاسکتا ہے جیسے طوفانوں، سیلابوں اور خشک سالی کو کنٹرول کیا جا سکے گا اور جہاں جس کی ضرورت ہوگی اس کو بڑھا دیا جائے گا۔ اس ٹیکنالوجی سے قبل بادلوں کو کیمیکل اسپرے کے ذریعے تشکیل دیا اور کنٹرول کیا جاتا تھا جو انسانی صحت پر مضر اثرات مرتب کرتا تھا جب کہ بیجنگ اولمپلک کی افتتاحی تقریب کے دوران چین نے ایسا راکٹ فضا میں بھیجا جس نے کلاؤڈ سیڈنگ یعنی بادلوں کی تخلیق کے عمل سے بارش کو روک دیا تھا اوربارش برسانے والے بادلوں کو دوسرے مقام کی جانب منتقل کردیا تھا۔

Cemetery of cars, old cars in the world where there are precious



حال ہی میں جرمن فوٹو گرافر ڈیٹر کلین نے امریکہ کی مختلف ریاستوں میں سفر کرتے ہوئے گاڑیوں کے ’یارڈز‘ کی تصاویر دنیا کو دکھائی ہیں۔گاڑیوں کے ان قبرستانوں میں کئی گاڑیاں اس قدر نایاب ہیں کہ اگر انہیں نکال کر ٹھیک کرنے کے بعد فروخت کیا جائے تو آپ کروڑ پتی بن سکتے ہیں۔
ڈیٹر کلین نے اپنے سفر کو تصاویر کی شکل میں Forest Punkنامی کتاب سے شائع کیا ہے جس میں اس نے بتایا ہے کہ وہ اوکلوہاما،ٹیکساس،نیو میکسیکو،ایری زونا،کنساس،کولوریڈو اور میسوری کی ریاستوں میں گیا ہے اوروہاں اسے نے ’یارڈز‘ میں ایسی قیمتی گاڑیاں دیکھیں کہ وہ دنگ رہ گیااور انہیں ’بیش قیمت خزانے‘کا نام دیا۔ان گاڑیوں میں JaguarsاورCitroenکے ٹرک شامل ہیں۔اس کا کہنا ہے کہ ان تصاویر کو اس نے بغیر کسی تبدیلی کے شائع کیا ہے اور لوگ خود اندازہ کرسکتے ہیں کہ یہ گاڑیاں کس قدر قیمتی ہو سکتی ہیں۔

Wonderful family lived off the floating fortress



ہم سب کی خواہش ہے کہ اس دنیا کی گہما گہمی سے دور کسی پرسکون جگہ پر زندگی گزاریں لیکن کبھی ایسا ممکن نہیں ہو پاتا۔ایک کینیڈین جوڑے نے اس خواب کو حقیقت بناتے ہوئے کینیڈا کے صوبے برٹش کولمبیا کے ساحلی شہر ٹوفینو کے پاس سمندر کے بیچوں بیچ ایک قلعہ تعمیر کیا ہے۔وائن ایڈمز اور کیتھرین کنگ کاتیرتا ہوا یہ قلعہ 12پلیٹ فارمز پر مشتمل ہے جس میں گھر،گرین ہاﺅس اور رہنے کے لئے کھلی جگہ ہے۔تیرنے والا قلعہ کینیڈین جوڑے نے 1992میں تعمیر کیا تھا اور وہ اپنے دو بچوں کے ساتھ رہتے ہیں۔
یہ تمام پلیٹ فارم آپس میں اس مہارت سے جوڑے گئے ہیں کہ ایک سے دوسرے پر جانے میں بالکل بھی دقت نہیں ہوتی۔سردیوں کے دنوں میں وہ پینے کے لئے بارش کا پانی اکٹھا کرتے ہیں اور گرمیوں میں وہ پینے کا پانی نزدیکی آبشاروں سے لاتے ہیں۔انہوں نے اس قلعہ میں گرین ہاﺅسز بنا رکھے ہیں جس کی وجہ سے کھانے پینے کے لئے سبزیاں اور پھل حاصل کرتے ہیں جبکہ بجلی کے لئے انہوں نے سولر پینل اور فوٹو وولیٹیک جنریٹر رکھے ہوئے ہیں۔اس قلعہ پر ایک لائیٹ ہاﺅس بھی ہے۔انہوں نے مرغیاں پالنے کے لئے بھی ایک حصہ مخصوص کررکھا تھا لیکن انہیں خدشہ ہے کہ کوئی سمندری بلا ان مرغیوں کو کھانے کے لئے حملہ ہی نہ کردے۔ان کا کہنا ہے کہ انہیں 20سال سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے اور اس دوران انہوں نے قلعہ میں کئی طرح کی تبدیلیاں کی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ اس قلعہ پر انہیں سب سے زیادہ مسئلہ 30پاﺅنڈ وزنی چوہوں سے ہوتا ہے جو انہیں مسلسل تنگ کرتے رہتے ہیں لیکن وہ پھر بھی اپنے جزیرے نما قلعہ کو خوبصورت بنانے میں لگے رہتے ہیں۔
اگر کوئی اس جزیرے نما قلعہ کو دیکھنے کے لئے کینیڈین جوڑے کے پاس آنا چاہتا ہے تو وہ اسے خوش آمدید کہتے ہیں اور ساتھ ہی اس کو بنانے اور چلانے کے طریقے بھی بتاتے ہیں۔

Earthquake in other parts of KP



خیبرپختونخواہ کے بیشتر علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے ۔ 
مقامی میڈیاکے مطابق پشاور،بٹ خیلہ ، مالاکنڈ ، دیر بالا،لوئر دیر،سوات ، مینگورہ اورگردونواح میں زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے ۔ زلزلہ پیمامرکز کے مطابق زلزلے کی شدت 5.5ریکارڈ کی گئی اور اس کا مرکز تاجکستان تھا۔ 
ابتدائی طورپر کسی جانی ومالی نقصان کی اطلاع نہیں ملی تاہم لوگ گھروں سے باہر نکل آئے ۔

This woman wears the same dress fasting 3 years



کام پر جانے کے لئے روزانہ کپڑوں کا انتخاب ایک مشکل چیز ہے لیکن اس کا حل ایک امریکی خاتون نے بہت دلچسپ نکالاہے۔میٹلیڈا کہل کا کہنا ہے کہ گذشتہ تین سال سے اس نے ایک ہی رنگ کالباس زیب تن کررکھا ہے اور وہ بہت سے مسائل سے آزاد زندگی گزار رہی ہے۔
میٹیلیڈا ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی میں کام کرتی ہے جہاں اسے مختلف بڑے پراجیکٹس پر کام کرنا ہوتا ہے اور روز روز کپڑوں کی تبدیلی اور انتخاب کے جھنجھٹ کی وجہ سے اس نے ایک روز فیصلہ کیا کہ وہ ایک ایسا یونیفارم ڈیزائن کرے گی جو وہ روز پہن کر جائے گی ۔حال ہی میں دئیے گئے ایک انٹرویو میں اس کا کہنا تھا کہ وہ روز روزکپڑوں کے انتخاب میں بہت سی توانائی ضائع کردیتی تھی اور اس چیز سے بہت تنگ تھی لیکن پھر ایک دم اسے خیال آیا کہ کیوں نہ ایسا لباس بنایا جائے جو وہ روز پہن سکے۔اس خیال کے دل میں آتے ہی وہ نزدیکی بازار میں گئی اور سفید اور سیاہ رنگ کا کپڑا خریدا اور ایک ہی طرح کے چھ لباس بنا لئے تا کہ روز روز لانڈری کا مسئلہ بھی نہ ہو۔اب وہ کہیں بھی جاتی ہے تو اس لباس کا مسئلہ درپیش نہیں ہوتا۔اس نے جب اپنی اس کاوش کا ذکر ایک آرٹیکل میں کیا تو لوگوں نے اسے بہت سراہا۔میٹیلیڈا کا کہنا ہے کہ اس عادت کی وجہ سے اس کا بہت سا قیمتی وقت اور سرمایہ بچ جاتاہے۔

Nepali capital slipped to the ground several meters disclosure



ہفتہ کے روز نیپال میں آنیوالے تباہ کن زلزلے کے نتیجے میں ہلاکتوں کی تعداد 4,300سے تجاوز کرگئی ہے جبکہ ماہرین ارضیات نے انکشاف کیاہے کہ دارلحکومت کھٹمنڈومیں پوری زمین ہی جنوب کی طرف کئی میٹرتک سرک گئی ہے ۔
تفصیلات کے مطابق زلزلے سے متاثرہ نیپال میں پاکستان او ر چین سمیت کئی ممالک کی تنظیمیں اور سرکاری ادارے ریسکیوآپریشن میں دن رات مصروف ہیں ، چین کی ریسکیوٹیموں نے 62گھنٹے بعد ملبے تلے دبے ایک شخص کو زندہ نکال لیا جبکہ پاک فوج نے بھی امدادی سامان کی دوسری کھیپ روانہ کردی ہے ۔ پاک فوج کے محکمہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق نورخان ایئربیس سے مزید دوسی 130طیارے نیپال روانہ کردیئے گئے ہیں ، طیاروں میں امدادی سامان کے علاوہ سرچ آپریشن کیلئے استعمال ہونیوالے آلات، طبی اور انجینئرز کی ٹیمیں شامل ہیں ۔ 
غیرملکی خبررساں ایجنسی کے مطابق ماہرین ارضیات نے انکشاف کیاہے کہ زلزلے کی وجہ سے کھٹمنڈو کی زمین کئی میٹرتک جنوب کی طرف سرک گئی ہے اور اُس کے واپس آنے پر مزید تباہی کا خدشہ ہے تاہم ماﺅنٹ ایورسٹ کی بلندی یا پوزیشن میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ۔ 
اقوام متحدہ نے کہاہے کہ نیپال زلزلے کے نتیجے میں 80افراد متاثرہوئے ہیں اور 14لاکھ افراد کو خوراک کی کمی کاسامناہے ، امداددینے والے ممالک یاادارے خوراک ، پانی اور خیمے فراہم کریں ۔

Returning elections officer suspended for non-cooperation



 بلدیاتی الیکشن کیلئے عدم تعاون پر الیکشن کمیشن نے تیسرے ریٹرننگ افسر کو بھی معطل کردیاہے ۔ 
الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری اعلامیہ میں بتایاگیاکہ عدم تعاون پر ڈپٹی پوسٹ ماسٹرجنرل نے ڈی آئی خان کے ریٹرننگ افسرکومعطل کردیاہے جس کے بعد معطل کیے گئے ریٹرننگ افسران کی تعداد تین ہوگئی ، اس سے پہلے نوشہرہ سے دوافسران معطل کیے گئے تھے ۔ 
الیکشن کمیشن کے مطابق ڈی آئی خان کے ریٹرننگ افسران کو شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے پانچ مئی کوجواب طلب کرلیاگیاہے ۔

Mango which you are unaware that prescription



گرمیوں کی آمد آمد ہے اور پھلوں کے بادشاہ آم کی پیدوار بھی شروع ہوگئی ہے ، آم کے ذائقے اورپھل سے متعلق تو ہم سب واقف ہیں لیکن اس کی مدد سے بنائے نسخوں کی افادیت سے متعلق بیشتر لوگ لاعلم ہیں ۔ گھر میں یہ آسان نسخے بنائیں اور فائدہ اُٹھائیں ۔ 
خون اور منی بڑھانے کا نسخہ
پکے آم کا تازہ رس ایک پاؤ
ستاور کا سفوف پانچ گرام
ثعلب کا سفوف پانچ گرام
تازہ دودھ ایک پاؤ
ادرک کا رس ایک چمچ
دیسی گھی ایک چمچ
ان سب چیزوں کو مکس کر لیں اورروزانہ پینے سے ایک مہینے کے اندراندر خون کی کمی، مردانہ کمزوری اور تولید ی منی کی کمی بھی دور ہوجاتی ہے ۔ 
سن سٹروک.
سخت گرمی بعض اوقات سن سٹروک یعنی لولگنے کے امکانات یقینی ہوتے ہیں جو سخت تکلیف دہ ہوتاہے اور یہی سن سٹرک بعض اوقات موت کا باعث بھی بن سکتاہے ، سن سٹرک سے بچاﺅ کے لیے کچے آم کو آگ پر نرم کر نے کے بعد اس کے پانی میں تھوڑی سی چینی ملائیں اور پی لیں ،کچاآم چونکہ ہرموسم میں دستیاب نہیں ہوتاتو دیرپانسخہ بنانے کیلئے اس کا شربت بنالیں ۔جب کچے آم کی گٹھلی موٹی ہو چکی ہو حسب ضرورت لے کر بھوبھل یا گرم راکھ میں دبا دیں۔ جب آم پک کر پھول جائیں تو نچوڑ لیں، جتنا پانی نکلے اس سے دوگنا چینی ملا کر پکائیں اور شربت بن جائے تو رکھ دیں۔ سن سٹروک کی حالت میں دو دو گھنٹہ بعد پانی میں پلائیں
 مقوی دماغ اور جسم
پکے ہوئے آم کا میٹھا رس ایک پاؤ
 تازہ دودھ آدھ پاﺅ
 ادرک کا تازہ رس ایک چمچ چھوٹی
ان سب چیزوں کو ملالیں اور روزانہ استعمال مفید ہے ۔ 
.ان فوائد کے علاوہ آم دائمی سردرد سے نجات دلانے ، سرکے بوجھل پن ، آنکھوں کے آگے اندھیراآجانے ، سانس پھولنے ، جگرکی کمزوری ، رنگ زرد ہونا وغیرہ کے لیے بھی مفید ہے ۔

انسانی جسم میں ایک ہڈی ایسے ہوتی ہے جو دھماکے اور کیمائی اثر سے بھی محفوظ رہتی ہے دیکھیں اور پڑہیں


Ghee useful for health



گو کہ کچھ سال پہلے تک یہ مانا جاتا تھا کہ گھی کا استعمال کئی بیماریوں کی وجہ بنتا ہے مگر حالیہ کئی تحقیقوں میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پرانے دیسی گھی جیسی اچھی چکنائی آپ کو تندرست اور توانا رہنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔

چاہے آپ اپنی فٹنس کے حوالے پرجوش شخصیت ہوں جو کہ روزانہ ورزش کرتے ہیں یا اپنا وزن کچھ پاؤنڈز کم کرنا چاہتے ہیں، دیسی گھی کی معتدل مقدار میں دونوں چیزوں کا حل موجود ہے۔

دیسی گھی کا طویل المدتی استعمال نہ صرف آپ کے جسم میں موجود چربی کو کم کرتا ہے بلکہ یہ پٹھوں کو بھی مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ ہڈیوں اور جوڑوں میں درد کا شکار افراد کے لیے بھی مؤثر ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ دیسی گھی آپ کے جسم میں موجود غیرضروری کولیسٹرول اور چربی (ایل ڈی ایل) جو کو کم کرتا ہے جس سے کھانے کے ہضم ہونے کی رفتار تیز ہو جاتی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ اگر آپ دل کے عارضے میں مبتلا ہیں تو آپ کو یقیناً یہ کہا گیا ہو گا کہ گھی میں تلی ہوئی اور بنی ہوئی غذائیں آپ کے لیے نقصاندہ ہیں لیکن اب دل کے ماہرین نے بھی اس چیز کو تسلیم کر لیا ہے کہ گھی میں موجود اومیگا تھری فیٹی ایسڈز دل کے لیے کافی بہتر ہوتے ہیں۔

مزید یہ کہ گھی میں موجود وٹامن اے نظر سے متعلق بیماریوں کے خلاف مفید ہے جب کہ وٹامن ای جلد کے سیلز کو دوبارہ بننے میں مدد فراہم کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ معمولی جل کے بعد متاثرہ جلد پر گھی لگانے کا پرانا دیستی ٹوٹکا خاصا کارآمد ہوتا ہے۔

یاد ہے کہ گھی کی بہت زیادہ نہیں بلکہ متعدل استعمال فائدہ مند ہے۔

نوٹ: اس مضمون کی لکھاری صبا گل حسن ماہر غذائیت ہیں۔

Telling stories for children, which leads to an increase in their mental development, research




امریکا میں سنسناٹی چلڈرن ہاسپٹل میڈیکل سینٹر کے مطابق بچوں کو اسکول بھیجنے سے قبل کہانیاں سنانے سے ان کی دماغی نشوونما پر گہرا اثر پڑتا ہے اور ہم نے پہلی مرتبہ یہ ثابت کیا ہے کہ کنڈر گارٹن (کے جی) اسکول سے قبل کہانیاں سنانے سے بچوں میں کہانیوں کو سمجھنے اور اس سے تعلق بنانے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے، اس کے لیے 19 صحت مند بچوں پر ٹیسٹ کیے گئے جن کی عمر 3 سے 5 برس تھی اور ان میں 37 فیصد بچوں کا تعلق کم آمدنی والے خاندان سے تھا۔

پہلے والدین سے معلوم کیا گیا کہ وہ اپنے بچوں کو رات کو کہانیاں سناتے ہیں یا نہیں پھر ان بچوں کے دماغ کے ایم آر آئی اسکین لیے گئے اور ان مقامات کو دیکھا گیا جو پڑھنے اور الفاظ سے معنی اخذ کرنے کا کام کرتے ہیں، جن بچوں کو رات کو ان کے والدین کہانیاں سناتے تھے ان میں پڑھنے اور الفاظ سے معنی نکالنے والے حصے بہت فعال دیکھے گئے۔

ماہرین کا کہنا تھا کہ والدین کے اس عمل سے نہ صرف بچوں میں آگے چل کر پڑھنے کا شعور بڑھے گا بلکہ ان کا ذہن بھی غیر معمولی طور پر فعال ہوگا۔

he world's first malaria vaccine developed for use in Africa



ملیریا سے ہر سال 6 لاکھ افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں جن میں سے اکثریت کا تعلق افریقا سے ہے، آرٹی ایس ایس نامی یہ ویکسین خصوصی طور پر بچوں کے لیے ڈیزائن کی گئی ہے اور اسے ملیریا کے خلاف پہلی لائسنس یافتہ ویکسین کہا جاسکتا ہے جس پر گزشتہ 30 برس سے کام جاری تھا۔
ویکسین کی طبی آزمائش 2009 میں شروع ہوئی جس میں گبون، برکینا فاسو، گھانا، کینیا، ملاوی، موزمبیق اور تنزانیہ کے 15 ہزار سے زائد بچوں کو یہ ویکسین دی گئی جب کہ ویکسین بچوں کے دو گروپوں پر آزمائی گئی جن میں ایک گروپ کے بچوں کی عمر 6 سے 12 ہفتے تھی جب کہ دوسرے گروپ میں 5 سے 17 ماہ کے بچے شامل تھے، دونوں گروہوں کو 3 ماہ تک ویکسین کی خوراک دی گئی، پہلے گروپ میں کامیابی کا تناسب 27 فیصد تھا جب کہ دوسرے گروپ میں 46 فیصد بچے پولیو سے محفوظ رہے اور ان میں سے بہت سے بچے اگلے چار برس تک بھی ملیریا کے شکار نہ ہوئے۔

ویکسین کو یورپی میڈیسن ایجنسی سے لائسنس ملنے کی صورت میں عالمی ادارہ صحت کی جانب سے رواں سال اکتوبر تک استعمال کی اجازت ملنے کی توقع ہے۔

Pakistani soldiers who participated in World War I everlasting love story



آپ نے محبت کی لازوال کہانیاں تو سن رکھی ہوں گی لیکن آج ہم آپ کو ایک پاکستانی فوجی کی کہانی سنائیں گے جس کا پیار اس قدر سچا تھا کہ وہ دوسرے ملک سے اپنی دلہن نہ صرف بیاہ کرلایا بلکہ 70سال سے اس کے ساتھ خوشگوار زندگی گزار رہا ہے اور اگر آپ اس جوڑے سے ملنا چاہیں تو اس کے آبائی گاؤں چکوال جاسکتے ہیں۔
92سالہ مظفر خان اپنے علاقے میں ’چاچاکلو‘ کے نام سے جانا جاتا ہے جبکہ اس کی برما نژادبیوی عائشہ کی اس وقت عمر 84سال ہے اور لوگ اسے ’ماشو‘کے نام سے جانتے ہیں۔وقت کے ساتھ ان کی یاداشت سے 1940ء کی دہائی کی باتیں دھندلا گئی ہیں لیکن ابھی بھی ان کا پیار پہلے روز کی طرح تازہ ہے۔گو کہ قدرت نے انہیں اولاد جیسی نعمت سے نہیں نوازا لیکن پھر بھی وہ ایک دوسرے کے لئے جیتے ہیں۔’ماشو‘جو اب بہت روانی سے پنجابی زبان بولتی ہے کا کہنا ہے کہ اسے یاد ہے کہ وہ برما کے شہر ’میکی ٹیلا‘میں پلی بڑھی اور بچپن میں اپنی ماں کے ساتھ ’بدھ مندر‘جایا کرتی تھی۔
چکوال کا مظفر خان 20سال کی عمر میں برطانوی فوج کی جانب سے لڑنے کے لئے دوسری جنگ عظیم میں 1944ء میں برما پہنچا۔اس وقت اتحادی فوجیں جن میں امریکہ،برطانیہ اور چین شامل تھے جاپان کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے۔ان دنوں برطانوی فوج میں زیادہ تر لوگ برصغیر سے شامل کئے جاتے تھے۔مظفر خان کو برطانوی فوج کی آرڈینینس کور میں بطور فوجی تعینات کیا گیا۔
مظفر خان کے بھائیوں کے بچوں کا کہنا ہے کہ ان کے بڑوں نے بتایا کہ ’چاچاکلو‘کو برما کی ایک بیرک میں تعینات کیا گیا جہاں ایک نیلی آنکھوں اور لمبے بالوں والی لڑکی انہیں کھانا دیا کرتی تھی اور اس لڑکی سے اسے محبت ہوگئی۔’چاچاکلو‘کا کہنا ہے کہ ’ماشو‘ کے تمام گھر والے جنگ میں مارے گئے اور وہ اسے اپنے ساتھ پاکستان لے آیا تاکہ اس سے شادی کرلی جائے۔’زیادہ عمر کی وجہ سے چاچا کلو‘ اس وقت تقریباًبہرہ ہوچکا ہے جبکہ ’ماشو‘ کی نظر بہت زیادہ کمزور ہوچکی ہے لیکن ابھی بھی دونوں ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں۔’ماشو‘ کا کہنا ہے کہ اسے اپنے شوہر کے لئے اس عمر میں بھی چائے بنانا اچھا لگتاہے۔اس کا کہنا ہے کہ مظفر نے اسے گھر اور خاندان دیااور وہ اس سے بہت زیادہ خوش ہے۔ماشو کا کہنا تھا کہ مظفر سے شادی سے قبل اس نے اسلام قبول کیا اور اب اسے اپنا پرانا نام یاد نہیں لیکن وہ ماضی کی نسبت اپنے حال میں زیادہ خوش ہے۔
مظفر نے حج بھی کررکھا ہے لیکن اس کی بیوی کو یہ سعادت نصیب نہیں ہوسکی جس کی وجہ ان کی کم پینشن ہے جو اسے کامن ویلتھ کی جانب سے دی جاتی ہے۔

Very loud voice, said second moment buried under snow relay.

نیپال میں آنے والی زلزلے سے وہاں موجود دنیا کے بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ بھی اپنی تاریخ کے سب سے بڑے حادثے کا شکار ہوئی ہے۔ نیپال کے محکمہ کوہ پیمائی کے مطابق کوہ پیماں سمیت 17 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ لاپتہ یا زخمی ہونے والے کوہ پیماں کی تعداد بھی زیادہ ہے۔ زخمی گائیڈ نے اپنے تاثرات میں کہا کہ اس نے بہت اونچی آواز سنی اور دوسرے ہی لمحے میں برف کے ریلے تلے دب گیا۔ میری آنکھ کھلی تو میں ایک ٹینٹ میں تھا اور میرے اردگرد بہت سے غیر ملکی کھڑے تھے۔
مجھے نہیں معلوم تھا کہ کیا ہوا اور میں کہا ہوں۔ کڈنی شرپانے زخمی حالت میں ایئرپورٹ پہنچنے کے بعد اپنے مختصر بیان میں بتایا کہ میں کھانا بنارہا تھا ہم سب زلزلے کے بعد کھلی جگہ پر دوڑ کر پہنچے اور اگلے ہی لمحے برف کی ایک دیوار میرے اوپر آگری میں نے اس سے باہر نکلنے کی کوشش کی جو میری قبر بن سکتی تھی میرا دم گھٹ رہا تھا میں سانس نہیں لے پارہا تھا لیکن مجھے معلوم تھا کہ مجھے جینا ہوگا۔ وہ خود تو بچ گئے لیکن انہوں نے بہت سے دوستوں کو کھودیا۔ جب وہ باہر نکلنے میں کامیاب ہوئے تو ہر طرف تباہی ہی تباہی تھی اور بیس کیمپ کا حصہ ختم ہوچکا تھا۔
اتوار کو چھ اعشاریہ سات کی شدت سے آنے والے سب سے شدید آفنرشاکس سے مزید برفانی تودے گرنے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ ان غیر ملکیوں کی شہریت واضح نہیں ہوسکی اور زخمیوں کو امداد دی جارہی ہے۔ زلزلے کے بعد تودے گرنے اور آفٹر شاکس کے خدشے کی وجہ سے ہر طرف افراتفری کا عالم ہے۔ امداد کے لئے علاقے میں ہیلی کاپٹرز پہنچائے گئے جو زخمیوں کو قریبی گاؤں لے جاکر انہیں طبی امداد فراہم کررہے ہیں۔ تاہم موسم کی شدت کے باعث امدادی کارروائیوں میں رکاوٹ پیش آرہی ہے۔
خبر رساں ادار روئٹرز نے نیپال کی وزارت سیاحت کے حوالے سے لکھا ہے کہ زلزلہ کے وقت کم از کم 1000 کوہ پیما جن میں 400 غیر ملکی بھی شامل ہیں یا تو بیس کیمپ میں موجود تھے یا پھر اپنی مہم جوئی کا آغاز کرچکے تھے۔ حکام کے مطابق ایورسٹ کے بیس کیمپ سے اوپر کیمپ نمبر ایک اور دو میں 100کوہ پیما اور گائیڈ موجود تھے لیکن وہ زلزلے کے باعث راستہ خراب ہوجانے کی وجہ سے نیچے آنے میں ناکام ہیں۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ماؤنٹ ایورسٹ میں برفانی تودہ گرنے کے نتیجے میں بیس کیمپ میں موجود کوہ پیماؤں اور دیگر اراکین کا پہلے گروہ کو اتوار کو کھٹمنڈو پہنچایا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ تمام زخمیوں کی حالت خطرے سے باہر ہے۔ جس وقت زلزلہ آیا اس وقت درجنوں کوہ پیماں کوچٹانوں میں گھرے ایک گاؤں میں تربیت دی جارہی تھی کیونکہ انہوں نے چند ہی ہفتوں بعد چوٹی کو سر کرنے کے لئے جانا تھا۔

Imran khan Blames destruction of Pak cricket to PM nawaz shareef.


 تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کرکٹ کی زبوں حالی پر کاذمہ دار وزیراعظم میاں نواز شریف کو ٹھہرا دیا۔ انہوں نے کہا ہے کہ نواز شریف بھی کرکٹ کی تباہی کے ذمہ دار ہیں،انہوں نے الیکشن میں دھاندلی کرانے والے کوپاکستان کرکٹ بورڈ کاچیئرمین بنا کرپاکستان کی کرکٹ تباہ کرنے میں اپنا حصہ ڈالا۔ سوشل میڈیا کی ویب سائٹ پر اپنے پیغام میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کی کرکٹ بدترین دور سے گزر رہی ہے، انہوں نے کہا کہ 1980ءکے بعد ڈومیسٹک کرکٹ کا ڈھانچہ تباہ ہو گیا۔اب کرکٹ کا ڈھانچہ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ پی سی بی چیف اور احسان مانی نے بھی کرکٹ کا ڈھانچہ بدلنے پر زور دیاہے۔

Indeed, destruction, death toll rises to 45, the intermittent rains expected in the twin cities



خیبر پختونخواہ کے مختلف علاقوں میں موسلادھار بارشوں،ژالہ باری اور طوفان نے تباہی مچا دی، مختلف علاقوں میں چھتیں گرنے اور دیگر حادثات سے ہلاک ہونے افراد کی تعداد 45 ہو گئی جبکہ 200سے زائدزخمیوں کو مختلف ہسپتالوں میں منتقل کردیاگیا، محکمہ موسمیات کے مطابق بارشوں کا سلسلہ مالاکنڈ ڈویژن کی طرف بڑھ رہاہے جبکہ آئندہ چوبیس گھنٹوں میں راولپنڈی اور اسلام آباد میں بھی وقفے وقفے سے بارشوں کا امکان ہے ۔ 
تفصیلات کے مطابق طوفانی بارشوں سمیت ژالہ باری اور طوفانی بگولے سے پشاور سمیت نواحی علاقوں واحد گڑھی، لیاقت آباد، چارسدہ روڈ، چمکنی، پخہ غلام، بدھوثمرباغ، نوشہرہ، مردان اور دیگر علاقوں میں چھتیں گرگئیں جہاں متعدد افراد ملبے تلے دب گئے۔ بارشوں کا سلسلہ پیر کو بھی جاری ہے۔
سب سے زیادہ تباہی چارسدہ روڈ، بدھو ثمر باغ، بڈھنی پل، پخہ غلام، واحد گڑھی، لیاقت آباد اور گردو نواح میں ہوئی جہاں بجلی کے دیو قامت کھمبے اور ٹرانسفارمر گرگئے، درخت جڑوں سے ا±کھڑ گئے، کچے مکانوں کی دیواریں اور چھتیں منہدم ہوگئیں، سائن بورڈز اور بڑے بڑے اشتہاری بورڈ گرگئے، بعض مقامات پر کھمبے اور ٹرانسفارمر گرنے سے گاڑیاں تباہ ہوگئیں ، موٹر وے ٹول پلازہ کے بوتھ تیز ہواو¿ں سے تنکے کی مانند ا±ڑ گئے۔واحد گڑھی میں ایک ہی خاندان کے آٹھ افرادجاں بحق ہوگئے جن کے جنازے اُٹھنے پر کہرام مچ گیا۔
انتیس افراد کی لاشیں لیڈی ریڈنگ ہسپتال، 10 چارسدہ اور 5 نوشہرہ ڈی ایچ کیو میں منتقل کی گئیں۔
ایک بیان میں محکمہ موسمیات نے کہا ہے کہ آئندہ چوبیس گھنٹوں میں پشاور، ہزارہ اورمالاکنڈ ڈویژن میں تیز بارش کا امکان ہے جبکہ جڑواں شہروں میں بھی وقفے وقفے سے بارشوں کا امکان ہے ۔ 
محکمہ موسمیات کے مطابق پشاورمیں گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران 59ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی، رسالپور میں 39، بالاکوٹ میں 22، سیدو شریف میں 11ملی میٹر، چراٹ میں 19، کالام 17، دیر 15 اور مالم جبہ میں 9ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔
صوبائی محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر مشتاق علی شاہ نے بارش کو ایک چھوٹے طوفان سے تعبیر کرتے ہوئے بتایا کہ بارش کے دوران 110 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ہواو¿ں نے تباہی مچائی، طوفان کی رفتار دم توڑ چکی ہے لیکن اگلے تین سے چار گھنٹوں تک شدید بارش متوقع ہے۔
محکمہ موسمیات ڈائیریکٹر محمد حنیف نے پشاور کی طوفانی بارش کی وجہ جنگلات کا کٹاو¿ اور آلودگی میں اضافہ قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ قوم کو اس طرح مزید صورتحال کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ انہوں نے پشاور میں آنے والے طوفان کو ملکی تاریخ کا تیسرا بڑا ہوائی بگولہ قرار دیا۔ انہوں نے بتا یا کہ اس طرح کا بگولہ دو سال قبل سیالکوٹ اور نو سال پہلے سرگوھا میں آیا تھا۔محمد حنیف کے مطابق ہوائی بگولوں کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں آب و ہوا تبدیل ہوچکی ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ جنگلات کا کٹاو¿ اور تیزی سے بڑھتی فضائی آلودگی ہے۔ا±ن کا کہنا تھا کہ آنے والے دنوں میں اس طرح کی مزیدصورتحال دیکھنے میں آ سکتی ہے، جس کے لیے ہمیں تیار رہنا ہوگا۔

Rahat Fateh Ali Khan Zaroori Tha

Millat Liaquat Ali Khan have killed Americans, US Department of State report



یہ دستاویزات اگرچہ59سال پرانی ہیں مگرپاکستان کے زخم آج بھی تازہ ہیں۔امریکی محکمہ خارجہ کی ان دستاویزات میں اس جرم سے پردہ اٹھاتے ہوئے بتایاگیاہے کہ امریکااس وقت ایران کے تیل کے چشموں پرنظررکھتاتھااوریہ بھی جانتاتھاکہ اس دورمیں ایران اورپاکستان کے تعلقات بہت زبردست ہیں اوران دنوں 1950-51میں افغانستان پاکستان کادشمن شمارہوتاتھا اور افغانستان واحدملک تھاجس نے پاکستان کوتسلیم نہیں کیا تھا۔

اس وقت امریکی صدرنے قائد ملت لیاقت علی خان سے سفارش کی تھی کہ اپنے قریبی دوستوں ایرانیوں سے کہہ کر تیل کے کنوؤں کاٹھیکہ امریکاکودلوا دیں اس پر لیاقت علی خان نے دو ٹوک جواب دیا کہ میں ایران سے اپنی دوستی کاناجائز فائدہ نہیں اٹھاناچاہتااورنہ ہی ان کے داخلی معاملات میں مداخلت کروں گا، اگلے روز امریکی صدرٹرومین کالیاقت علی خان کو دھمکی آمیز فون موصول ہواملیاقت علی خان نے جواب میں کہا کہ میں ناقابل خریدہوں اورنہ کسی کی دھمکی میں آنے والا ہوں ۔

یہ کہہ کر فون بند کر دیااور حکم دیا کہ آئندہ 24گھنٹوں کے اندر پاکستان میں امریکاکے جتنے طیارے کھڑے ہیں وہ پرواز کرجائیں اور اپنے ملک کو واپس چلے جائیں، ادھر واشنگٹن ڈی سی میں اسی لمحے ایک میٹنگ ہوئی اورطے ہوا کہ نوابزادہ لیاقت علی خان ہمارے کام کاآدمی نہیں ہے، امریکا نے پاکستان میں ایک کرائے کے قاتل کی تلاش شروع کردی اس زمانے میں اس کاسفارتخانہ کراچی میں تھا جو پاکستان کادارالخلافہ تھا،امریکاکو پورے پاکستان میں کرائے کاایک قاتل نہیں مل سکا پھرواشنگٹن ڈی سی سے کراچی میں امریکی اورکابل کے سفارتخانے کوفون کیاکہ قاتل کوافغانستان میں تلاش کیاجائے۔

امریکا نے شاہ ظاہرشاہ کو یہ لالچ دیا کہ اگر تم لیاقت علی خان کا قاتل تیار کرلو تو ہم صوبہ پختونستان کوآزاد کرا لیں گے افغان حکومت تیار ہو گئی بلکہ 3آدمی ڈھونڈے، ایک توسیداکبر تھا جسے گولی چلانی تھی،2مزید افراد تھے جنھوں نے اس موقع پر سید اکبرکوقتل کر دیناتھاتاکہ کوئی نشان کوئی گواہ باقی نہ رہے اورقتل کی سازش دب کررہ جائے تو16اکتوبرسے ایک دن پہلے سیداکبراوراس کے وہ ساتھی جنھیں وہ اپنا محافظ سمجھتاتھا،تینوں راولپنڈی آئے۔ایک ہوٹل میں رکے اورقبل از وقت کمپنی باغ میں اگلی صفوں میں بیٹھ گئے،سید اکبرنے دو نالی رائفل چھپارکھی تھی، لیاقت علی خان جلسہ گاہ آئے اور اپنے خاص اندازمیں کھڑے ہو کر کہا برادران ملت توسیداکبر نے اپنے کوٹ سے رائفل نکال کر2فائرکیے جو سیدھے بدقسمتی سے لیاقت علی خان کے سینے پر لگے ،ان کے آخری الفاظ یہ تھے خداپاکستان کی حفاظت کرے۔

ادھر سید اکبر کے جومحافظ بھیجے گئے تھے انھوں نے سید اکبرکوقتل کر دیا اور مشتعل ہجوم نے محافظوں اورسید اکبر کو پیروں تلے ایساروندھا کہ ہمیشہ کے لیے وہ سازش چھپ کررہ گئی،اب ڈی کلاسیفائی ڈاکومنٹس نے اس معاملے کوواضح کیاہے۔واضح رہے کہ نوابزادہ لیاقت علی خان کے قتل کے حوالے سے آج تک مختلف کہانیاں سامنے آتی رہی ہیں لیکن 60سال بعد امریکی محکمہ خارجہ نے یہ سارے رازافشاکردیے ۔

Beating heart Countinue Placeing ing the Ice Tub



ترکی کے رہائشی 40 سالہ بلینت سونمیز نامی شخص کو جان لیوا دل کا دورہ پڑنے پر فوری طور پر اسپتال منتقل کیا گیا جہاں ڈاکٹروں نے مریض کی دل کی دھڑکوں کو بحال کرنے کی سرتوڑکوششیں کیں تاہم انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
ڈاکٹروں کی جانب سے تمام کوششوں میں ناکامی کے بعد مریض کی دھڑکنیں بحال کرنے انوکھا طریقہ علاج ’’ہائپو تھرمیا‘‘ اختیار کیا گیا جس کے تحت اسے برف کے ٹب میں ڈال دیا گیا جس کے بعد ڈاکٹر بلینت نامی اس مریض کے جسم کا درجہ حرارت 30 سینٹی گریڈ پر لانے میں کامیاب ہوگئے۔
ڈاکٹروں کے اس انوکھے طریقہ علاج ہائپو تھرمیا کا طریقہ کار گر ثابت ہوا اور بلینت کے دل نے دوبارہ دھڑکنا شروع کردیا جس کے بعد ڈاکٹرز اس کے جسم کو نارمل درجہ حرارت پر لے آئے اور 24 گھنٹے انتہائی نگہداشت میں گزارنے کے بعد مریض دوبارہ زندگی کی جانب لوٹ آیا۔

Indonesian ban on alcohol sales


مسلمانوں کی سب سے زیادہ آبادی والے ملک انڈونیشیاءمیں چھوٹی دکانوں پر شراب کی فروخت پر پابندی کے قانون پر عمل درآمد شروع ہوگیا ہے اس قانون کے تحت ملک میں 70ہزار کے قریب دکانین شراب فروخت نہیں کرسکیں گی انڈونیشیاءکی حکومت کے مطابق یہ پابندی ضروری تھی تاکہ مسلمانوں کے اکثریتی ملک میں ن وجوانوں کو شراب سے بچایا جاسکے بالی اور فائیو اسٹار ہوٹل اس پرابندی کے دائرے میں نہیں آئیں گے تاہم جزیرے کے ساحلوں پر دکاندار سیاحوں کو شراب فروخت نہیں کرسکیں گے ۔

A US drone attack begun with


رطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق امریکا کی جانب سے’’لوکسٹ‘‘ یا ’’ٹڈی دل‘‘ نامی ان ڈرونز میں ایک دوسرے سے علیحدہ اڑنے اور اکٹھے اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت ہوگی، یہ جدید ڈرونز جب فضا میں ہوں گے تو اپنے پر لپیٹ کر ایک فارمیشن میں پرواز کرسکیں گے اور چھوٹے ہونے کے باعث ان ڈرونز کو طیارے،بحری جہاز یا گاڑی سے بھی چلایا جاسکے گا۔

نشریاتی ادارے کا کہنا ہے کہ ان ڈرونز کے مشنز کو ری پروگرام کیا جاسکے گا تاہم ہر مشن کی نگرانی انسان ہی کریں گے جب کہ امریکی بحریہ آئندہ سال ان ڈرونز کو متعارف کرانے کا ارادہ رکھتی ہے۔

Mahmud, Somnath and White's dishonesty



سول سروس کے امتحان میں تاریخِ پاک و ہند اور تاریخِ اسلام میرے اختیاری مضامین میں شامل تھے۔ یہ دونوں تاریخیں ایسی ہیں جن میں گذشتہ دو تین سو سالوں میں انگریز نے ایک خاص مقصد سے اسقدر جھوٹ کا اضافہ کیا ہے کہ اگر آج کوئی سچ بولنا بھی چاہیے اور تاریخ کے اصل مآخذ سامنے لا کر بتائے کہ انگریز کس قدر بددیانت اور جھوٹا ہے تو اکثریت یہ کہہ کر ماننے سے انکار کر دے گی کہ ہم نے جو کورس کی کتابوں میں پڑھا ہے اور جو اپنے بزرگوں کے منہ سے سنتے آئے ہیں، کیا یہ سب جھوٹ ہے۔

تاریخ پاک و ہند پر تو گورے نے خاص کرمفرمائی کی ہے اور مسلمانوں کے ہر اس کرِدار کو مسخ کرنے کی کوشش کی جس سے ذراسی مذہبیت جھلکتی تھی۔ یوں بھی ہندوستان مسلمانوں سے پہلے کئی ریاستوں میں بٹا ہوا علاقہ تھا، اس لیے اس کی تاریخ کی گہرائی میں اترنے کے لیے آپ کو ایک ایسی عمر چاہیے جو صرف کتابوں میں ہی بسر ہو۔سول سروس کے امتحان کی تیاری کے دوران میں ایک ایسی مورٔخ سے روشناس ہوا جس میں تعصب نام کی کوئی چیز نہ تھی۔

اس کی کتاب(A History of India) میرے لیے ایک حیران کن تجربہ تھی۔ پینگوئن والوں نے اسے 1966 میں چھاپا تھا۔ اس کی مولف اس زمانے میں دہلی یونیورسٹی میں تاریخ کی پروفیسر تھی۔1931میں پیدا ہونے والی رو میلا تھاپر (Romila Thaper)نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے کیا اور پھر یونیورسٹی آف لندن سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ امریکا، برطانیہ، فرانس اور دیگر ممالک کی یونیورسٹیوں میں وہ پڑھاتی رہی۔

اسے2005ء میں پدمابھوشن ایوارڈ دیا گیا تو اس نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میں اپنے علمی کام پر سرکاری سرپرستی نہیں چاہتی۔ رومیلا تھاپر نے برصغیر پاک وہند کی تاریخ میں گورے کی بددیانتی کی ایک بہت بڑی مثال اپنی کتاب سومنات: تاریخ کی بہت سی آوازیں (Somantha: the many voices of history) میں پیش کی ہے۔

اس کتاب میں اس نے قدیم سنسکرت اور فارسی کے تاریخی شواہد سے ثابت کیا ہے کہ محمود غزنوی کی سومنات کے عظیم مندر کی تباہی، اس کے بہت بڑے بت کو توڑنا، اس کے اندر سے سونا اور دولت کا نکالنا اور اس دولت کو لوٹ کر غزنی لے جانا، یہ ساری کہانی انگریز دور میں تراشی گئی۔ انگریز دور میں ہی محمود غزنوی کو بت شکن کا لقب دے کر مسلمانوں کے ہاں اس کے کردار کی عظمت اور ہندوؤں کے ہاں کردار کشی کی گئی۔اس تاریخی بددیانتی کا آغاز برطانوی پارلیمنٹ کی1843کی اس بحث سے ہوتا ہے جسے(The proclamation of gates) یعنی دروازوں کی برآمدگی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

یہ بحث گورنر جنرل لارڈ ایلن برو(Ellen brough) کے اس اعلان کے بعد شروع ہوئی،جس میں اس نے کہا تھا کہ محمود غزنوی کے سومنات کے عظیم مندر سے صندل کی لکڑی کے تاریخی دروازے اکھاڑ کر غزنی میں نصب کیئے گئے تھے، یہ دروازے ہندوستان کا اثاثہ ہیں اور انھیں واپس لایا جائے۔پارلیمنٹ کی بحث کے دوران یہ ثابت کیا گیا کہ سومنات کے مندر کی تباہی دراصل ہندو قوم کی بہت بڑی توہین ہے، اس لیے دروازوں کو واپس لاکر ان کی عزت بحال کی جائے۔

انگریز کا اس بحث سے ایک ہی مقصد تھا کہ ہندو قوم کو افغانستان میں ہونے والی جنگ میں ساتھ ملایا جائے اور پورے ہندوستان پر یہ ثابت کیا جائے کہ انگریز کا افغانستان پر کس قدر کنٹرول ہے۔ یوں ایک مقامی فوجی بھرتی کے ساتھ افغانستان پر حملہ کیا گیا۔غزنی میں موجود دروازوں کو اکھاڑا گیا ۔ جب انھیں ہندوستان لایا گیا تو ان پر کنندہ آیاتِ قرآنی نے بھانڈا پھوڑ دیا کہ ان کا سومنات تو دور کی بات ہندو مذہب سے بھی کوئی تعلق نہیں۔ یہ دروازے آج بھی آگرہ کے قلعے کے اسٹور روم میں پڑے ہوئے ہیں۔

برصغیر کی تقسیم کے بعد اسی انگریز کے جھوٹ کو متعصب ہندوؤں نے اپنے لیے مشعلِ راہ بنایا اور تقسیم کے فوراً بعد ہی سومنات کا مندر دوبارہ تعمیر کرنے کی تحریک شروع کردی۔ اس کا سرغنہ کے ایم منشی تھا، جس نے گجرات کی تاریخ لکھی جس میں اس نے سومنات کو پورے برصغیر کے ہندو مذہب کی عظیم علامت اور بیرونی حملہ آوروں کے مقابلے میں بھارت کی جدوجہد کا استھان قرار دیا۔

تمام ہندو قوم پرستوں کے نزدیک اس کا دوبارہ تعمیر کیا جانا، محمود غزنوی کے حملوں کا منہ توڑ تاریخی جواب ہوگا۔ انگریز کی تحریر کردہ اسی تاریخ کی بنیاد پر جذباتی مسلمانوں نے بھی محمود غزنوی کو بت شکن کا لقب دے کر ایک اس واقعے کے دفاع پر زمین و آسمان کے قلابے ملائے جس کی حیثیت بہت ہی معمولی تھی۔

رومیلا تھاپر کہتی ہے کہ جب میں نے اصل سنسکرت میں لکھے تاریخی مآخذ کا مطالعہ شروع کیا تو میں حیران رہ گئی کہ وہاں سومنات نام کا شہر تو ملتا ہے لیکن وہاں کسی بڑے مندر کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔ جب کہ محمود غزنوی کے ہندوستان آنے سے بہت پہلے جین مت کے تاریخی مواد سے پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے سومنات پر حملہ کیا اور ایک مندرکو تباہ کیا۔

اس مندر کی تباہی کو وہ مہاویرکی شیو کے اوپر فتح کی علامت کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ رومیلا تھا پر حیرانی کے ساتھ تحریر کرتی ہے کہ میں نے جین تاریخ اور سنسکرت کے تاریخی مواد کو بہت تفصیل سے جانچا اور پرکھا اور ڈھونڈنے کی کوشش کی کہ کہیں محمود غزنوی کے مندر پر حملے اور اس کی لوٹ مار کا تذکرہ ملے، لیکن مجھے اس کا بالکل ذکر تک نہ ملا۔

جب کہ آج کے ہندو اس واقعہ کو اس قدر شدید درد اور کرب سے بیان کرتے ہیں جیسے یہ ان کی تاریخ کی بدترین کہانی ہو۔ محمود غزنوی کی آمد اور لڑائی کو جین اور سنسکرت کے تاریخی مآخذ ایک چھوٹے سے واقعہ کے طور پر لیتے ہیں جب کہ اس واقعہ کے سو سال بعد وہ بالکل خاموش ہو جاتے ہیں، جیسے یہ کوئی واقعہ ہی نہ تھا۔ جب کہ اس مندر کی آرائش اور اس کے ساتھ ساتھ ایک مسجد کی تعمیر کے بارے میں جین اور سنسکرت کے مورخین بہت کچھ تحریر کرتے ہیں۔

سومنات کا شہر ہندو آبادی اور مسلمان تاجروں کا شہر تھا، جہاں ہندو راجہ نے عرب کے تاجروں کو مسجد بنانے کے لیے زمین بھی دی تھی۔ رومیلا تھا پر کہتی ہے کہ سومنات کے ایک بوہرہ مسلمان تاجر کے بارے میں ایک کتبہ اسے ملا ،جو سومنات شہر کے دفاع میں مارا گیا۔

یہ تاریخی بددیانتی کب شرو ع ہوئی۔1872میں انگریز سرکار کی سرپرستی میں دو مورخیںH.M.Elliotاور Ed.John Dowsonنے ایک تاریخ مرتب کی جس کا نام تھا(History of India as told by its own historians)اِس کتاب کو تحریر کرنے کا بنیادی مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ ہندوستان ایک منقسم ملک ہے، یہ لوگ ہر وقت آپس میں دست و گریبان رہتے ہیں، اپنے خلاف ہونے والے حملوں کا دفاع نہیں کر سکتے۔

مسلمان حملہ آور خونخوار ہیں، مذہبی شدت پسند ہیں اور ہندوستان صرف انگریز ہی پر امن اور مستحکم رکھ سکتا ہے۔ برصغیر پاک وہند کے ہر نصاب تعلیم کی کتابوں میں، دانشوروں کی گفتگو میں اور عام لوگوں کی کہانیوں میں اسی کتاب کی جھوٹی داستانیں آج بھی گونجتی رہتی ہیں۔ محمود غزنوی لٹیرا تھا، اورنگ زیب ظالم تھا، مسلمانوں نے ہندوؤں پر ظلم کیا، ان کے مندر تباہ کیئے، انار کلی ایک جیتا جاگتا کردار تھی، اکبر بہت روادار تھا، ایسی کتنی کہانیاں ہیں جو اس برصغیر میں گردش کر رہی ہیں۔

لیکن برصغیر کی تاریخ میں کوئی یہ نہیں پڑھاتا کہ مندروں کو تباہ کرنا اور ان کو لوٹنا ہندوستان کے راجاؤں کا صدیوں سے دستور رہا ہے۔’’ چھولا ‘‘اور’’ چالوکا‘‘ کا خاندان جو برصغیر کے مختلف علاقوں پر حکمران تھے، ان کی تاریخی روایات(Epigraphic account) بتاتی ہیں کہ وہ حملہ کرتے اور مندروں کو لوٹتے اور تباہ کرتے تا کہ اپنی دھاک قائم کر سکیں۔642عیسوی میں نرسمہاومِن جو ’’پالوا‘‘ بادشاہ تھا اس نے ’’چالو کا‘‘ کے دارالحکومت واپتی کو فتح کیا تو گنیش کے مندر کو تباہ کر کے مورتی وہاں سے لے گیا۔

اس کے پچاس سال بعد’’ چالو کا‘‘ کا بادشاہ ونادتیا نے مختلف علاقوں کو فتح کیا، گنیش کی مورتی بھی واپس لے کر آیا اور دیگر مندروں کو تباہ کر کے گنگا اور جمنا کی بھی کئی مورتیاںدکن لے کر آیا۔ اسی طرح کی تباہی راشترا کوتا کے بادشاہ گوندا نے پھیلائی جس نے نویں صدی عیسوی میں کنچی پورم فتح کیا اور سری لنکا سے تمام مندروں کے بت اٹھا کر شیو کے مندر میں رکھ دیے۔ اجنتا اور الورا کی بدھ عبادت گاہوں کو ختم کیا گیا اور اس میں شیو اور گنگا کی مورتیاں رکھ کر انھیں مندر بنا دیا گیا۔ کوئی نہیں بتاتا کہ تاریخ میں دوسروں کی عبادت گاہ کو تباہ کرنے کا آغاز سکندر اعظم نے ایران میں پرسی پولس کی عبادت گاہ تباہ کر کے کیا تھا۔

سومنات کی تباہی کی کہانی بھی ویسی ہی ہے جیسے انگریز مورخین نے تاریخ میں یہ بددیانتی کی اور تحریر کیا کہ اسکندریہ میں دنیا کی سب سے قدیم لا ئبریری کو حضرت عمرؓ کے زمانے میں جلایا گیا۔ حالانکہ یہ لائبریری ان کی آمد سے چھ سو سال قبل مسیح میں جلا دی گئی تھی او ر اسے روم کے بادشاہ کے حکم پر جلایا گیا تھا۔

انگریز مورخین نے یہ جھوٹ تحریر کیا اور پھر جس کسی کو بھی حضرت عمر سے بغض تھا اس نے اس واقعہ کو تاریخ کا حصہ بنا لیا۔ اسی طرح جس کسی کو اسلام سے بغض تھا اس نے محمود غزنوی اور سومنات کے قصے کو ایسا لکھا کہ جھوٹ بھی سچ محسوس ہو۔

Spread over hundreds of square miles companion tree stands alone in the vast wilderness .




خوش نصیب اور سعادت مند ”صحابی درخت“ اردن میں موجود ہے۔ اسے تعظیم رسول کے طفیل بقائے دوام حاصل ہوئی۔ حیرت کی بات ہے کہ اس کی موجودگی کے مقام پر”صحافی درخت “کے علاوہ ایک پودا بھی پنپ نہیں سکالیکن اﷺس درخت کو آب وہوا کی شدت اور موسموں کے تغیر و تبدل سے کوئی خطرہ نہیں۔ اس درخت کاذکر ”صحیح ترمذی“میں ”ابواب المراقب“میں موجود ہے۔حضرت ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے کہ حضور اکرم کی عمرمبارک 12برس تھی جب جناب ابوطالب نے رو ¿سائے قریش کے ہمراہ تجارت کی غرض سے سفرشام کا عزم کیا۔ حضور اکرم ﷺ نے بھی ساتھ چلنے کی خواہش ظاہر کی۔ چنانچہ آپ کو بھی ساتھ لے لیا گیا۔ مو ¿رخین کے نزدیک یہ سفر 582ئ میں ہوا۔ جب یہ قافلہ بیت المقدس کے شمال میں دمشق کے قریب بصریٰ کے مقام پر پہنچا تو ایک گھنے درخت کے قریب جناب ابوطالب سواری سے نیچے اترے۔ باقی اہل قافلہ نے بھی آرام کی غرض سے سواریوں کو کھلا چھوڑ دیا۔ اس زمانے میں یہ علاقہ رومی سلطنت کے زیراقتدارتھا۔ درخت کے قریب ہی ایک گرجا گھرتھا جس میں ایک راہب رہتا تھا۔ راہب کا لقب ”بحیرا“ (Bahira) یعنی پارسا اور نام جرجیس یا سرجیس تھا۔انسائیکلوپیڈیا آف اسلام (Vol:1) مطبوعہ Leiden 1979‘ ص 922 کے مطابق اس نام کا تلفظ SERGIUS ہے۔ ”بحیرا“ اناجیل اربعہ کا بہت بڑا عالم تھا اور کتابِ مقدس کا درس دیا کرتا تھا اور اپنے علاقے میں نہایت قدر و منزلت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ حضرت سلمان فارسی نے بھی قبل از اسلام اسی سے علم حاصل کیا تھا۔شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے ”مدارج النبوہ“ (جلد دوم) میں لکھا ہے کہ ”بحیرا“ کے اس علاقہ میں مقیم ہونے کی وجہ اس کی یہ تحقیق تھی کہ ادھر سے نبی آخر الزماں کا گزرہوگاچنانچہ وہ حجاز سے آنے والے ہر قافلے کو اپنی کھڑکی سے دیکھتا رہتامگر اس میں اسے وہ ہستی نظر نہ آتی۔ ”بحیرا“ بلا کا تارک الدنیا اورگوشہ نشیں بزرگ تھا‘ کبھی گرجا گھرسے باہر آیا تھا اور نہ ہی کبھی کسی قافلے سے اس نے ملاقات کی تھی لیکن اس مرتبہ وہ خلافِ دستور قافلے پر نظریں جمائے گرجاگھرکے صدر دروازے پرکھڑا تھا۔ جب قافلے نے درخت کے نیچے پڑاو ¿ ڈالا تو وہ قافلے میں آکر گھس گیا اور حضوراکرم کا دستِ اقدس تھام کر لوگوں سے مخاطب ہو کر باآواز بلند کہنے لگا”یہ سرکارِ دو عالم ہیں‘ یہ رب العالمین کے رسول ہیں‘ اللہ انہیں رحمتہ للعالمین بنا کرمبعوث فرمائے گا“۔(ترمذی)


اہل قافلہ ”بحیرا “کا یہ تعامل دیکھ کر حیرت و استعجاب میں ڈوب گئے۔ رو ¿سائے قریش میں سے ایک نے پوچھا ”اے بزرگ محترم! آپ کو یہ بات کیسے معلوم ہوئی؟ “اس نے جواب دیا ”جب آپ لوگ گھاٹی سے اتر کے آ رہے تھے تو میں دیکھ رہا تھا کہ تمام درخت اورپتھر ان کے سامنے سجدہ کر رہے ہیں اور بادل ا ن کے سر پرسایہ کر رہا ہے۔ یہ خصوصیت صرف انبیائے کرام کو حاصل ہوتی ہے۔علاوہ ازیں میں انہیں مہر نبوت سے بھی پہچان سکتاہوں جو ان کے دو کندھوں کے درمیان ہوگی۔“
پھربحیراگرجا گھرمیں واپس چلاگیا تاکہ اہل قافلہ کے لئے ضیافت کا اہتمام کرے۔ جب وہ کھانا لے کراہل قافلہ کے پاس پہنچا تو حضوراکرم ﷺ اونٹ چرانے کے لئے تشریف لے گئے تھے۔ اس نے آپ کے بارے میں استفسار کیا۔ چنانچہ آپ کو بلایا گیا۔ آپ تشریف لائے تو ایک بدلی آپ کے سراقدس پر سایہ کناں تھی۔ جب آپ درخت کے قریب پہنچے تو اہل قافلہ درخت کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ ﷺ نے ازراہِ ادب سب سے پیچھے بیٹھنا گوارا کیا جہاں دھوپ تھی اور درخت کاسایہ ختم ہو جاتا تھا۔ فوراً درخت نے جھک کر آپ ﷺکے سراقدس پر سایہ کردیا۔
”البدایہ والنہایہ“ اور سیرت ابن ہشام کے مطابق درخت کی شاخیں بے تابانہ آپ کے سراقدس پر جھک گئیں۔ یہ دیکھ کر ”بحیرا“ فرطِ محبت سے مغلوب ہو کر بے ساختہ پکار اٹھا ”دیکھ لو درخت کا سایہ ان کی طرف جھک گیا ہے“۔
آنکھ والا ترے جوبن کا تماشا دیکھے۔۔۔دیدہ کور کو کیا آئے نظر‘ کیا دیکھےامام بیہقی نے اس واقعہ کو قدرے اختلاف کے ساتھ روایت کیاہے۔ ان کیمطابق ”بحیرا“ نے اہل قافلہ کو صومعہ کے اندر کھانے پر مدعو کیا۔ تمام قافلے والے چلے گئے لیکن حضو ر ﷺ اسی درخت کے نیچے تشریف فرما رہے۔ جب” بحیرا“کو حضور ﷺ نظر نہ آئے تواس نے کہا ”جس ہستی کے اعزاز میں یہ تقریب برپا کی گئی ہے وہ ہستی نظر نہیں آ رہی۔“ یہ سنتے ہی ایک قریشی یہ کہتے ہوئے اٹھا کہ لات و عزیٰ کی قسم! ہمارے لئے لائق شرم ہے کہ ہم تو کھانا کھا لیں اور عبداللہ بن عبدالمطلب کا فرزند رہ جائے“ اور حضورﷺ کو اپنی آغوش میں اٹھا لایا۔ ابونعیم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت کیاہے کہ جب آپﷺ گرجاگھرمیں داخل ہوئے توگرجا گھرنورِنبوت سے جگمگا اٹھا۔ شیخ عبدالرحمن جامی نے کیا خوب کہا ہے


محمد احمد و محمود‘ وی را خالقش بستود۔۔۔زو شد بود ہر موجود‘ زو شد دیدہ ہا بینا
ترجمہ :محمد مصطفی احمد اور محمود ہیں۔ آپ ﷺکو خالق نے اعلیٰ صفات سے متصف فرمایا۔ آپ ہی کی بدولت ہر چیزموجود ہے۔آپ ﷺہی کی بدولت ظلمتیں کافور ہوئیں اورہماری آنکھیں دیکھنے کے قابل ہوئیں۔
عصرحاضر میں سائنس بھی شجر و حجر میں شعور کے موجود ہونے کو تسلیم کرتی ہے اوراحادیثِ نبویہ سے بھی یہ بات ثابت ہے۔ ارشادنبوی ہے کہ ”احد“ (Ohud) پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم اس سے محبت رکھتے ہیں۔ جبکہ ’عیر“ پہا ڑ ہم سے بغض رکھتا ہے اور ہم بھی اس سے آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ میں اس پتھر کو پہچانتاہوں جو اعلان نبوت سے پہلے مجھے سلام کیاکرتا تھا۔القصہ مختصر ضیافت کے بعد ”بحیرا“ نے حضور اکرم ﷺ سے سوال و جواب کی ایک نشست کی اور جناب ابو طالب سے درخواست کی کہ آپ اپنے بھتیجے کو واپس لے جائیں‘ اگر رومی انہیں دیکھیں گے تو علاماتِ نبوت اور معجزات کی مدد سے انہیں پہچان کر ان کی جان کے درپے ہوں گے۔یوں ابوطالب حضور کو لے کر مکہ مکرمہ پلٹ آئے یا واپس بھجوا دیا۔قافلہ اس مقام سے روانہ ہو گیا لیکن صاحبِ ایمان درخت آج بھی اس مقام پر ترو تازہ ہے۔ موجودہ جغرافیائی حدود کے مطابق یہ درخت مشرقی اردن میں صفوی کے مقام پر وادی سرہان کے قریب واقعہ ہے۔ حکومت اردن نے اس کے قریب حجاز سے شام کو جانے والی تجارتی شاہراہ کے آثار بھی تلاش کرلئے ہیں اور اس درخت کی ڈاکومنٹری بھی بنائی ہے۔ اس کی اہم نشانی یہ ہے کہ یہ سینکڑوں مربع میل تک لق و دق صحرا میں اگا ہوا تنہا درخت ہے۔ مقام غور ہے کہ اگر ایک درخت کو حب رسول ﷺکی بدولت حیاتِ دائمی نصیب ہوسکتی ہے تو اس دل پر موت کیسے وارد ہوسکتی ہے جو محبتِ رسول ﷺ کاگنجینہ بن جائے۔اس درخت کی مزید تفصیل کے لئے الوفا یا احوالِ المصطفیٰ(ابن جوزی)‘ سیرت حلبیہ‘ الخصائص الکبریٰ‘ المواہب اللّدنیہ اور مدارج النبوہ وغیرہ کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ چشمانِ سر سے ہمیں اس درخت کی زیارت کاموقع عطا فرمائے۔

Saudi Arabia does not provide free or cheap oil to , Pakistan , Finance Minister Pak

برطانوی نشریاتی ادارے کو دیئے گئے انٹرویو میں وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ پاکستان معمول کے تجارتی قواعد کے مطابق سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت، مسقط اور عمان سے تیل خریدتا ہے اور سعودی عرب سے پاکستان کو تیل نہ مفت اور نہ ہی سستا ملتا ہے اور نہ ہی غیر معمولی تجارتی قواعد کے تحت دیا جاتا ہے بلکہ سعودی عرب سے تیل مارکیٹ ریٹ پر خریدا جاتا ہے۔ انہوں نے پاکستان کے جوہری اور دفاعی پروگرام میں خفیہ سعودی مدد کی خبروں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملےمیں سعودی عرب کی جانب سے کوئی پوشیدہ مدد نہیں کی گئی، سعودی عرب نے تاریخ میں صرف ایک بار جوہری دھماکوں کے بعد تقریباً 2 ارب ڈالر کا مفت تیل دیا جس کی ہم بڑی قدر کرتے ہیں۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سعودی عرب نے دوست کے طور پر تحفے میں ڈیڑھ ارب ڈالر دیے جسے ہم بڑی قدر سے دیکھتے ہیں لیکن اس کے علاوہ سعودی عرب کی جانب سے ہمارے جوہری پروگرام اور آپریشن ضرب عضب میں کوئی مدد نہیں کی گئی اس کے لیے پاکستان تمام اخراجات اپنے وسائل سے ہی پورے کررہا ہے۔ یمن سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ یمن کے مسئلے پر پاکستان کے خلیجی ممالک سے تعلقات میں کوئی کشیدگی نہیں ، ہمارا یہی موقف ہے کہ اگر سعودی عرب کو براہ راست کوئی خطرہ لاحق ہوا تو اسے پاکستان پر حملہ سمجھ کر اس میں عملی طور پر شامل ہوں گے۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ قیام پاکستان کے بعد سے ہمارے خلیجی ممالک سے خصوصی تعلقات رہے ہیں اور سعودی عرب سے ہمارا بھائیوں جیسا تعلق ہے، ہم اپنے موقف کے مطابق ان کے نہ صرف ساتھ ہیں بلکہ ان سے بھی ایک قدم آگے جارہے ہیں کیونکہ وزیراعظم نوازشریف واحد رہنما ہیں جنہوں نے حوثیوں کو مذاکرات کی میز پر لانے اور منصور ہادی کی حکومت کو بحال کرنے میں ایران سے کردارادا کرنے کا کہا ہے۔

اسحاق ڈار نے کہا کہ سعودی عرب سے آنے والے ترسیلاتِ زر پاکستان کے لیے قابل قدر ہیں اس سے ہمیں اپنے تجارتی خسارے پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے لیکن ہمیں اس بات کو بھی سامنے رکھنا چاہئے کہ پاکستانی وہاں اپنی گراں قدر خدمات فراہم کرتے ہیں اور انہیں وہاں مفت میں کچھ نہیں ملتا بلکہ وہاں پاکستانیوں کو دوسرے ممالک کے شہریوں کے مقابلے میں اجرت بھی کم ملتی ہے۔

IT Standing Committee approved the Electronic Crime Bill



قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی نے الیکٹرانک کرائم بل کی منظوری دیدی
کپمیوٹر پر کئے جانے والے کرائم کی روک تھام کیلے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی نے الیکٹرانک کرائم بل 2015کی منظور ی دیدی جس میں خلاف ورزی کرنے والوں کیلئے سخت سزاؤں کا تعین کیا گیاہے۔چئیرمین قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی صفدر کی زیرصدارت کمیٹی کا اجلاس ہوا ،جس میں انٹرنیٹ کے ذریعےکیے جانے والے کرائم کو روکنے کیلیے الیکٹرانک کرائم بل پیش کیا گیا جو کہ متفقہ طور پر منظور کرلیا گیاہے۔

بل کے متن میں کہاگیاہےکہ حساس اورقومی نوعیت کے ڈیٹا تک رسائی اور اسے چرانے پر 6سال قید اور50لاکھ جرمانہ،ہیکنگ اور کمپیوٹر معلومات تک غیر قانوی رسائی پر 3سال قید اور 10لاکھ جرمانہ اورکسی تصویر کے حصے تبدیل کرکے انٹرنیٹ پر اس کی تشہیر پر 7ساست سال قید 50لاکھ روپے جرمانے کی سزادی جائے گی۔بل میں کہا گیاہے کہ نفرت انگیز لٹریچر و تقاریر کی تشہیر پر پانچ سال قید اور 50لاکھ جرمانہ ،حساس آن لائن نظام میں مداخلت پر 7سال قید اور 50لاکھ جرمانہ،غیر قانونی سموں کی فروخت پر 14سال قید اور 5کروڑ روپے جرمانے کی سزا دی جائے گی۔بل میں مزید کہاگیا کہ پاکستانی ٹیلی کمیونیکیشن اٹھارٹی اسلامی اقدار ،قومی تشخص ،ملکی سیکیورٹی اور دفاع کے خلاف مواد بند کرنے کی پابند ہو گی۔

Discrimination against Indian Muslims protest Maoist leader TN gambling accepted Islam


بھارتی اخبارات کی رپورٹ کے مطابق ٹی این جوئےکا کہنا ہے کہ کا قبول اسلام بھارت میں مسلمانوں کے خلاف بڑھتی ہوئی عصبیت کے خلاف احتجاج کا ان کا اپنا انداز ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ بھارت میں وہ اپنا پیدائشی مذہب ترک کر رہے ہیں، وہ ایک ایسے معاشرے کے قیام کے خواہاں ہیں جس میں کسی فرد کی طرف سے مذہب کی تبدیلی کوئی’’خبر‘‘ نہ ہو، انھوں نے کہا کہ ان کے والد نے ہندو مذہب میں ذات پات کے نظام کے خلاف احتجاج کے طور پر ان کا نام جوئے رکھا تھا۔

اب وہ اس احتجاج کو آگے بڑھا رہے ہیں، انھوں نے کہا کہ بابری مسجد کی شہادت کے بعد تمام ہندوؤں میں فسطائیت کی دم نکل آئی ہے اور مسلمان بھارت میں خوف کی زندگی بسر کرتے ہیں، ٹی این جوئے نے 1970 کے عشرے میں نکسل باغیوں کی تحریک کی قیادت کی تھی، وہ کئی احتجاجی مظاہروں میں شریک رہے اور قید کی سزائیں بھی کاٹیں۔

One of the perfect example of how good teacher can change student




Judicial commission to probe alleged irregularities in the election of the first meeting today




چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں 3 رکنی عدالتی کمیشن عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کرے گا، کمیشن میں جسٹس امیر مسلم ہانی اور جسٹس اعجاز افضل بھی شامل ہیں جب کہ کمیشن اس حوالے سے اپنی کارروائی مکمل کرکے 45 روز میں رپورٹ وفاقی حکومت کو پیش کرے گا۔

تحریک انصاف،پیپلزپارٹی، ایم کیوایم، مسلم لیگ (ق)، جماعت اور عوامی نیشنل پارٹی سمیت دیگر جماعتیں بھی جوڈیشل کمیشن میں فریق ہیں جب کہ وزیراعظم نوازشریف نے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے حوالے سے اعتراضات کا جواب دینے کے لیے خالد انور کی سربراہی میں قانونی ٹیم تشکیل دے دی ہے۔ پیپلزپارٹی کی جانب سے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے شواہد کمیشن میں جمع کرادیئے گئے ہیں جب کہ تحریک انصاف کی جانب سے جوڈیشل کمیشن میں پیش کرنے کے لیے نادرا سے انگوٹھوں کی تصدیق کی رپورٹ مانگی گئی تھی جسے نادرا نے فراہم کرنے سے انکار کردیا ہے۔

ترجمان تحریک انصاف کے مطابق عمران خان آج جوڈیشل کمیشن میں پیش ہوسکتے ہیں جب کہ ایم کیوایم کی جانب سے بھی عدالتی کمیشن میں پیش ہونے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس میں ایم کیوایم بعض حلقوں میں دھاندلی پر اپنا موقف پیش کرے گی۔

Find Us On Facebook

Social Networks

Blog Archive

 

Live Cricket

Featured Posts

videos

Most Reading