Search....

The background of the conflict in Yemen So read this article If you do not know



یمن میں سعودی عرب کے زیر قیادت عرب اتحاد نے باغی ’’الحوثیون‘‘ کے خلاف فضائی کارروائی کا آغاز کر کے عالمِ اسلام کو ایک نئی آزمائش سے دوچار کر دیا ہے ۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ حوثی فورس نے اپنے آپ کو، اپنے وطن کو، اپنے ہمسایہ ممالک اور پورے خطے کو جس آزمائش سے دوچار کر رکھا تھا، اس کے ردعمل نے موجودہ صورت حال کو جنم دے دیا ہے۔ بات جہاں سے اور جیسے بھی شروع کی جائے، یہ کہنا آسان نہیں ہے کہ ختم کہاں پر ہو گی ؂



اپنوں اور غیروں کی بے اعتدالیوں یا مُنہ زوریوں نے سعودی عرب کی سرحد پر ایک ایسا ’’افغانستان‘‘ لا کھڑا کیا ہے، جس کی گرہیں کھلتے کھلتے کھلیں گی۔ پاکستان اور افغانستان کی طرح سعودی عرب اور یمن کی سرحد بھی طویل اور یو رس(مسام دار) ہے۔ اس کی لمبائی1800کلو میٹر ہے اور اس میں سے آمدورفت کو روکنا آسان نہیں ہے۔ یمن میں بیٹھ کر سعودی عرب کے ساتھ وہی کچھ کیا جا سکتا ہے، جو افغانستان میں چھپنے والے پاکستان میں کر رہے ہیں یا پاکستان میں پناہ پانے والے افغانستان میں کرتے رہے ہیں۔ یمن کا شمار عالم عرب کے غریب ترین ممالک میں ہوتا ہے،اس لیے وہاں سے جس طرح کی ’’یلغار‘‘ سعودی عرب میں کی جا سکتی ہے، اس کا اندازہ ہر وہ آنکھ لگا سکتی ہے، جس میں ذرا سی بینائی بھی موجود ہے ، جس طرح بھارت افغانستان میں قدم جما کر وہاں سے پاکستان کو چرکے لگانے،بلکہ خنجر گھونپنے تک جیسی وارداتیں کر سکتا ہے اسی طرح سعودی عرب سے مخاصمت رکھنے والا کوئی عنصر(یا مُلک) اگر یمن میں اپنے (یا اپنی کٹھ پتلیوں کے) پاؤں جما لے تو یہاں بیٹھ کر کچوکے لگا سکتا ہے اور رستا ہوا خون دیکھ کر اطمینان کی سانسیں لے سکتا ہے۔

سعودی عرب اس سرحد پر باڑ لگانے کی کوشش میں ہے۔ ستمبر 2003ء میں اس منصوبے پر کام شروع ہوا اور 75کلو میٹر تک تعمیر کر لی گئی ، تو یمنی حکومت نے اس پر شدید اعتراض کر دیا، اس نے اسے تین سال پہلے طے پانے والے ایک سرحدی معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا، جس میں سرحدی علاقوں میں آمدورفت کو کھلا رکھنے کا اقرار کیا گیا تھا۔ پانچ ماہ بعد سعودی عرب کو کام روکنا پڑا۔ امریکہ اور مصر کی کوششوں سے یمن نے مشترکہ پٹرولنگ اور واچ ٹاورز قائم کرنے پر اتفاق کر لیا تاکہ مداخلت کاروں اور سمگلروں کو روکا جا سکے۔2006ء میں عراق کے ساتھ سعودی سرحد پر باڑ لگانے کے منصوبے کی خبر عام ہوئی، تو اس کے ساتھ ہی یمن سرحد پر باڑ لگانے کا منصوبہ پھر منظر عام پر آ گیا، کہ سرحدی معاہدے کے تحت کیے گئے انتظامات نتیجہ خیز نہ ہو سکے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق یمن سے ہر سال چار لاکھ تارکین وطن غیر قانونی طور پر سعودی عرب میں داخل ہو جاتے ہیں۔ جنوری2008ء میں باڑ سازی کا کام شروع کر دیا گیا، اس پر ساڑھے آٹھ بلین ڈالر کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔ یہ باڑ سرحد سے 100 میٹر کے فاصلے پر تعمیر کی جا رہی تھی، سعودی حکام نے یہ موقف اختیار کیا کہ اسے سعودی علاقے کے اندر تعمیر کیا جا رہا ہے۔اس کاوش سے بخوبی یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سعودی عرب کو اس کے افغانستان نے کس طرح کی الجھنوں سے دوچار کر رکھا ہے۔

مصر میں حسنی مبارک کے زوال کے بعد صدر صالح کی طویل حکومت کے خلاف جدوجہد شروع ہوئی، اور سڑکیں مظاہرین سے اٹ گئیں تو انہیں اقتدار چھوڑنا پڑا۔ وہ زیدی تھے، لیکن ان کی جگہ لینے والے ان کے نائب ہادی سُنی مسلمان تھے۔ یمن کے مختلف گروہوں نے ان کی صدارت پر اتفاق کیا اور انہیں بلامقابلہ صدر منتخب کر لیا گیا، لیکن بعدازاں اختلافات پیدا ہو گئے۔ اقتدار کی تقسیم آسان نہ رہی تو حوثیوں نے بغاوت کر کے دارالحکومت اور صدارتی محل پر قبضہ کر لیا۔ صدر ہادی نے فرار ہو کر جان بچائی۔ حوثی بغاوت کے پیچھے سابق صدر صالح کا ہاتھ بھی واضح تھا کہ فوج میں ان کے حامی دستے باغیوں کے ساتھ جا ملے تھے۔’’الحوثیون‘‘ نے انصار اللہ کے نام سے اپنے کام کا آغاز کیا تھا۔ ابتدا (1992ء) میں یہ ایک تبلیغی اصلاحی تحریک تھی، جس میں پڑھے لکھے نوجوان شامل تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک مسلح گروہ میں تبدیل ہو گئی۔2004ء میں اس کے سربراہ عبدالمالک الحوثی یمنی افواج سے ایک جھڑپ میں مارے گئے، تو یہ گروہ ’’الحوثیون‘‘ کہلانے لگ پڑا۔2003 میں عراق پر حملے نے اسے مسلح جدوجہد کی طرف مائل کر دیا۔ یاد رہے کہ امریکہ اور برطانیہ نے صدام حسین کی حکومت کے خاتمے کے لئے یہ مہم جوئی کی تھی اور اس کے انتہائی تلخ اثرات پورا خطہ، اب تک بھگت رہا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ صدام حسین کا تعلق بعث پارٹی سے تھا، اور انہیں سُنی سمجھا جاتا تھا، لیکن یمن کے جو نوجوان امریکہ مخالف جذبات میں ابل پڑے، وہ زیدی شیعہ کہلاتے ہیں۔ دارالحکومت صنعا کی مسجد میں انہوں نے ’’امریکہ مردہ باد‘‘ کے فلک شگاف نعرے لگائے تو حکومت سے ان کا ٹکراؤ ہو گیا۔ صدر صالح بھی زیدی تھے، لیکن انہیں نوجوان انقلابی ایک آنکھ نہیں بھا رہے تھے۔ یہاں سے حکومت کے ساتھ مخاصمت کا آغاز ہوا، بات مسلح کارروائیوں تک پہنچ گئی۔ فوج کو حرکت میں لایا گیا، انقلابی تحریک کے رہنما کو صدر صالح نے دارالحکومت میں مذاکرات کی دعوت دی، جسے انہوں نے رد کر دیا اور ایک جھڑپ میں جاں بحق ہو گئے۔ بالآخر صدر صالح کے اقتدار کا خاتمہ ہوا۔ ہادی حکومت قائم ہو گئی اور اس کے خلاف بغاوت نے انہیں بھاگنے پر مجبور کر دیا۔
یمن کے زیدی، عقیدے کے اعتبار سے اہلِ سنت کے قریب اور اثنا عشری شیعوں سے دور ہیں وہ حضرت علی ؓ کو دوسرے صحابہ کے مقابلے میں افضل اور خلافت کا حق دار سمجھتے ہیں، لیکن تبرّیٰ نہیں کرتے۔ ان کے امام زید بن زین العابدین بن حسین بن علیؓ ،حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور حضرت عمرؓ کے بارے میں مودب تھے ان کا یہ قول مشہور ہے کہ مَیں نے اپنے بزرگوں سے ان (شیخین) کے بارے میں کوئی منفی بات نہیں سنی۔ زید بن علی نے امویوں کے خلاف جہاد کیا تو امام ابو حنیفہ نے ان کا (نسبتاً خاموش) ساتھ دیا تھا، اور ان کی مالی اعانت بھی کی تھی۔۔۔ اس تفصیل سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ یمن میں کوئی شیعہ سُنی تنازعہ موجود نہیں تھا اور فی الحقیقت آج بھی اسے صرف اس حوالے سے نہیں دیکھا سکتا۔
’’الحوثیون‘‘ نے جدوجہد کا آغاز کیا تو ایران کو گویا ’’فطری حلیف‘‘ مل گئے۔ انہیں ہتھیار اور دوسرے لوازمات فراہم ہونے لگے اوران کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر گئی۔ یوں جذبۂ شہادت سے سرشار نوجوانوں کی فوج تیار کر لی گئی۔’’الحوثیون‘‘ کے خلاف صدر ہادی کی امداد کے لیے سعودی عرب اور اس کے اتحادی فضاؤں میں تیر رہے ہیں تو ان کی کارروائی کو غیر قانونی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ویسے بھی زیدی یمن کی کل آبادی کا ایک تہائی ہیں، اور اگر فیصلہ قبیلے یا مسلک کی بنیاد پر ہونا ہے تو ایک تہائی، دو تہائی پر حکومت نہیں کر سکتے۔۔۔ یمن میں اقتدار ان لوگوں کے پاس آ جائے جو سعودی عرب کے روایتی حریف کے حلیف ہوں، تو گویا حریفوں کو ایسی مچان میسر آ جائے گی، جہاں بیٹھ کر سعودی سرزمین میں کٹھ پتلیوں کو نچانے کی کوششیں تیز ہو سکیں۔
یہ بھی یاد رہنا چاہئے کہ یمن میں اس وقت مختلف عناصر اور مختلف مسالک کے جتھے اپنی اپنی دھن میں کارروائیاں کر رہے ہیں،یہاں القاعدہ اور داعش کے حامی بھی مسلح ہیں، اور وہ اپنے خوابوں میں مست(بلکہ بدمست) ہیں۔ یہ قبائلی معاشرہ ہے، اور اس کے مختلف قبائل ایک دوسرے سے اسی طرح برسر پیکار رہ سکتے ہیں، جس طرح افغانستان کے جہادی رہے ہیں یا کسی نہ کسی طور اب بھی ہیں۔ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کا اضطراب بے سبب نہیں ہے، اس لیے ان کی سیاسی، اخلاقی اور نفسیاتی امداد اہلِ پاکستان پر لازم ہے کہ مشکل گھڑی میں دوستوں سے یہی توقع رکھی جاتی ہے، جہاں تک عملی تعاون کا تعلق ہے، اس کی حدود و قیود کا جائزہ لینا سیاسی اور عسکری قیادت کے ذمے ہے۔ یہ کوشش بھی کی جانی چاہئے کہ ایران سے بات چیت کا دروازہ بھی 
کھلے،اور اسے باور کرایا جائے کہ عدم تحفظ کا ماحول اس کے حق میں بھی نہیں ہے۔


Yemen Arab coalition led by Saudi dissident 'alhusyun' Islam of the air launch a new trial has been plagued by. It can also be said that the Houthi force yourself, your home, your neighbors and the entire region was suffering from the trial, the response is delivered to the current situation. As a matter of where to start, it is not easy to say where that would end Oh







Family and strangers disorders or mouth zuryun a border of Saudi Arabia, Afghanistan, stands, which will open bloom bloom knots. Pakistan and Afghanistan, Saudi Arabia and Yemen border like the long and U juice (spongy) is. Its length is 1800 km and it is not easy to stop the traffic. Yemen sits in what can be done with Saudi Arabia, which in Afghanistan are hiding in Pakistan or Afghanistan who have been sheltered in Pakistan. Yemen is the poorest country in the Arab world, the way there, '' invasion '' may be in Saudi Arabia, it could be estimated that each eye, which exists in the slightest sight is there a foothold in Afghanistan, Pakistan, India to crky, but as the accused could stab Saudi Arabia as well as any element of hostility (or country) in the Yemen (or their stooges ) If the foot concurrently kcuky could sit here and watch the blood drained satisfaction can breath.

Saudi Arabia is trying to fence the border. September 2003, the project began and 75 kilometers built, taken, if the Yemeni government in a serious objection made him three years ago signed a border treaty violations, declaring the border areas open to traffic was admitted. Saudi Arabia had to stop working after five months. US Yemen and Egypt's efforts to establish a joint patrol and watch towers agreed to intervene so as to prevent smuggling cars and in 2006 the Saudi border with Iraq, fencing project on the news became public, then the Yemen border fencing plan only come to the fore, that the border agreement could not productive arrangements. Each year an estimated four million immigrants from Yemen illegally get into Saudi. In January 2008, work began building the fence, it was estimated eight billion dollars. It is 100 meters from the border fence was being built, the Saudi authorities have argued that it is being built in Saudi territory. This effort may well be that it is estimated that Saudi Arabia Afghanistan is suffering from the complications of how.

After the fall of Hosni Mubarak in Egypt, Saleh's long struggle against the government began, and roads were swamped with protesters they had to quit. They were Zaidi, who took his place was his Sunni deputy Hadi. Yemen factions agreed on his presidency and was elected president unopposed, but then have differed. If the distribution of power is not easy husyun the rebel capital and occupied the presidential palace. President Hadi escaped saved. Yemen President Saleh's hand behind the uprising was also clear that the supporters of the rebel forces were met with. '' Alhusyun 'Ansar Allah, began its work. Initialize (1992) it was a religious reform movement, which included the educated youth. With the passage of time has turned into an armed group leader Abdul alhusy in .2004 Yemeni troops were killed in a clash, these groups' alhusyun called the attack on Iraq in 2003, it had seemed armed struggle The incline. The United States and Britain for the collapse of Saddam Hussein's regime and its harsh effects of adventures entire region, now serving Interesting thing is that Saddam Hussein's Baath Party was concerned, and They were Sunnis, but the young anti-American sentiment burst of Yemen, they are called Zaidi Shia. Mosque of Sana'a, the capital, he 'death to America' crack the sky was a conflict with the government slogans. President Saleh said Zaidi, but they were young revolutionary one eye injury. Here began the confrontation with the government, reached the armed operations. The army was mobilized, revolutionary leader, President Saleh invited talks in the capital, which he refused and was killed in a shootout. President Saleh's regime finally collapsed. Hadi said government and rebel against him, forcing him to flee.

Yemen's Zaidi, according to the faith of the Sunni and Twelver Shi'ites are far from the other companions of the Prophet and the Caliphate deserves better than to believe, but do not Ali. Al Zaid ibn Husayn ibn Husayn ibn Ali, Abu Bakr and Umar were about Surely they said that I have known them from their elders (legitimate) heard nothing negative about. Zaid bin Ali fought the Umayyads Imam Abu Hanifa's (relatively quiet), had had their funds ... It is estimated that in detail in Yemen, there was no Shia-Sunni conflict and the fact that not only could see it today.

'Alhusyun' struggle began, as Iran 'natural allies' were found. They began providing weapons and other accessories and exceeded one hundred. Dedicated to witness the dedication of young army was drawn up. 'Alhusyun' to support the President Hadi Saudi Arabia and its allies are floating in the skies, their action can not be illegal. Anyway Zaidi, a third of the population of Yemen, and the decision is to be based on tribe or sect, then a third, two-thirds rule can not ... Those who came to power in Yemen, Saudi Arabia, I am an advocate of traditional competitors, rivals, and as it will be in a loft, where sits in Saudi soil stooges could dance steps.

It should also be remembered that the different elements in Yemen and groups of different denominations are acting in their lyrics, here are armed supporters of Al Qaeda and Iraq, and they go about their dreams (but bdmst are). It is a tribal society, and its different tribes fought each other are similar, the Afghan jihad, or somehow still. Saudi Arabia and its allies do not cause anxiety, but their political, moral and psychological support in difficult times it is necessary for the friends of Pakistan expected that, as far as practical cooperation is concerned, the limitations and restrictions is responsible for reviewing the political and military leadership. This effort should be also open the door to talks with Iran, and to convince him that the atmosphere of insecurity is not in its favor

No comments:

Post a Comment

Find Us On Facebook

Social Networks

Blog Archive

 

Live Cricket

Featured Posts

videos

Most Reading